’’جمہور کا موقف ہے کہ یہ حرام نہیں اور انھوں نے ایسی دلیل سے استدلال کیا ہے جو اس استدلال کے قابل نہیں اور انھوں نے باب کی احادیث کی بعید تاویل کے ذریعے تاویل کی ہے، لیکن تاویل تب ہی مناسب ہے کہ انھوں نے جو تاویل کی ہے بعد میں اس کے خلاف کوئی دلیل قائم نہ ہو۔‘‘
ابوالطیب صدیق حسن خان نے ’’فتح العلام‘‘ (۱/۳۱۰) میں یہ اضافہ نقل کیا:
’’کوئی دلیل نہیں اور وہ احادیث جو زیارت نبویہ کی ترغیب اور اس کی فضیلت میں وارد ہیں ان میں اس زیارت کی خاطر رخت سفر باندھنے کا حکم نہیں، اس کے ساتھ ساتھ یہ کہ وہ سب ضعیف ہیں یا موضوع، ان میں سے کوئی بھی استدلال کے لیے درست نہیں، اکثر لوگوں نے مسئلہ زیارت اور اس کی طرف سفر کے مسئلے کے درمیان فرق کو نہیں سمجھا، انھوں نے باب کی احادیث کو بلادلیل اس کے واضح منطوق سے پھیردیا جس کا وہ تقاضا کرتا ہے۔‘‘
میں نے کہا: نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر کی زیارت کے لیے ان ضعیف احادیث سے جن کی طرف اشارہ کیا گیا ہے،
استدلال کرنے کی کوئی ضرورت نہیں، باب میں جو ہے وہ اس سے بے نیاز کردیتا ہے، اگر اس باب میں قبروں کی زیارت کے بارے میں صرف عام احادیث ہی ہوں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر کی زیارت کے اثبات کے لیے وہی کافی ہیں، اور یہ تو باب اولیٰ سے ہے جیسا کہ واضح ہے، ہوسکتا ہے کہ اس کی وضاحت اس کے مناسب موقع ومحل پر آئے گی۔
خلاصہ:… ابومحمد الجوینی اور ان سے موافقت رکھنے والوں کا جو موقف ہے کہ ان تین مساجد کے علاوہ دیگر فضیلت والی جگہوں کا سفر کرنا حرام ہے یہی (موقف) حق اور درست ہے جسے اختیار کرنا واجب ہے، طلب علم اور تجارت وغیرہ کے لیے سفر کرنا اس زمرے میں نہیں آتا، کیونکہ اس ضرورت کے لیے سفر کرنا خواہ کہیں کا بھی ہو اور اسی طرح کسی دینی بھائی کی ملاقات کے لیے سفر کرنا بھی اس زمرے میں نہیں آتا، کیونکہ وہ تو مقصود ہے، جیسا کہ شیخ الاسلام نے اسے ’’الفتاوٰی‘‘ (۲/۱۸۶) میں بیان کیا۔
شیخ الاسلام انبیاء اور صالحین کی قبروں حتیٰ کہ ہمارے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر کی زیارت کے لیے رخت سفر باندھنے کی حرمت کا فتویٰ دینے کی وجہ سے بہت بڑی آزمائش کا شکار رہے، حالانکہ ان کا جو موقف ہے اور جس سے انھوں نے استدلال کیا ہے ان سے ان کی کتابیں بھری ہوئی ہیں،[1] امام سبکی نے ان کا ردّ کیا ہے وہ ان کے ہم عصر تھے اور انھوں نے اس بارے میں اپنی کتاب تالیف کی اور اس کا نام رکھا: ’’شفاء السقام فی زیارۃ
|