خیر الأنام‘‘ انھوں نے اس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر کی زیارت کی مشروعیت کے بارے میں وارد احادیث اور علماء کے اقوال نقل کیے ہیں، اس میں انھیں بڑی غلطی لگی، جب انھوں نے زیارت نبوی کے مطلق انکار کے متعلق ایک قول کو شیخ الاسلام کی طرف منسوب کیا۔ یعنی: رخت سفر باندھنے کے بغیر حالانکہ وہ تو اس کا اقرار کرنے والے اور اس کی فضیلت و آداب کا ذکر کرنے والے ہیں اور انھوں نے اس کا اپنی کئی ایک کتابوں میں ذکر کیا ہے، اسی لیے علامہ حافظ ابوعبد اللہ محمد بن عبد الہادی نے اپنی تالیف میں سبکی پر ردّ کیا اور اس کتاب کا نام رکھا: ’’الصارم المنکی فی الرد علی السبکی‘‘ وہ ایک قیمتی کتاب ہے اس میں فقہ و حدیث اور تاریخ کے حوالے سے بہت زیادہ فوائد ہیں، انھوں نے اس میں اس کی طرف اشارہ کرنے والی احادیث کا تفصیل سے حال بیان کیا ہے اور ان میں جو ضعف و وضع ہے وہ بیان کردیا ہے اور ابن تیمیہ کی طرف منسوب زیارت قبر شریف کے انکار سے شیخ الاسلام کی کتب سے اس کے جائز ہونے کے متعلق بہت سی نصوص نقل کرکے ان کی (اس انکار سے) براء ت ثابت کی ہے، جو چاہے اس کا مطالعہ کرے۔
یہ بڑی عجیب بات ہے کہ ابن تیمیہ کی طرف یہ غلط نسبت ان بہت سے علماء و مشائخ کے ہاں مشہور و مروج ہوگئی جو ان کے بعد آئے، ان کے آخر پر… ان شاء اللہ تعالیٰ … شیخ یوسف نبہانی ہیں، انھوں نے جہالت وگمراہی کی بنا پر ابن تیمیہ پر الزام و طعن کے حوالے سے بہت سے کتابچے کالے کیے (تصنیف کیے)، ایک فاضل عالم اٹھے اور انھوں نے ایک ضخیم کتاب میں اس کا ردّ کیا اور اس کتاب کا نام ہے: ’’غایۃ الأمانی فی الرد علی النبھانی‘‘ اس میں انھوں نے نبہانی کی جہالت و گمراہی واضح کی ہے اور حق و عدل کے ساتھ ابن تیمیہ کا دفاع کیا ہے، جو شخص حقیقت جاننا چاہے وہ اس کا مطالعہ کرے اور اس پر مکمل اعتماد کرے۔
اس میں کوئی مضائقہ نہیں کہ میں تمھیں وہ بیان کروں جسے (شاہ) ولی اللہ دہلوی نے رخت سفر باندھنے کے مسئلے میں ذکر کیا ہے، وہ بھی ایک نئے فائدے سے خالی نہیں، آپ رحمہ اللہ نے ’’الحجۃ البالغۃ‘‘ (۱/۱۹۲) میں فرمایا:
’’دور جاہلیت کے لوگ عظمت والی جگہوں کا قصد کیا کرتے تھے وہ اپنے زعم میں ان کی زیارت کرتے اور ان سے برکت حاصل کرتے تھے، جبکہ اس میں جو تحریف و فساد ہے وہ بالکل واضح ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فساد کو بند کیا تاکہ جو چیز شعار نہیں وہ شعائر کے ساتھ نہ مل جائے، تاکہ وہ غیر اللہ کی عبادت کا ذریعہ نہ بن جائے، میرے نزدیک حق یہ ہے کہ قبر، کسی ولی کی عبادت گاہ اور طُور نہی میں سب برابر ہیں۔‘‘
۲۲۳: ماہ رجب میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر شریف کی زیارت:
’’أحکام الجنائز‘‘ (۳۳۳/۲۲۳)، ’’تلخیص الجنائز‘‘ (۱۱۰/۲۲۳)۔
|