Maktaba Wahhabi

627 - 756
کی عبادت کی جسے اللہ نے عبادت قرار نہیں دیا۔ اسی لیے علماء نے ذکر کیا : ’’اگر اس نے نذر مانی کہ وہ ان تین مساجد کے علاوہ کسی مسجد یا خانقاہ میں نماز پڑھے گا یا وہاں اعتکاف کرے گا یا اس کی طرف سفر کرے گا، تو باتفاق ائمہ یہ اس پر واجب نہیں، اس کے برعکس اس نے نذر مانی کہ وہ حج یا عمرہ کے لیے مسجد حرام آئے گا تو یہ باتفاق علماء واجب ہے اور اگر اس نے نذر مانی کہ وہ نماز یا اعتکاف کے لیے مسجد النبی صلی اللہ علیہ وسلم یا مسجد اقصیٰ آئے گا تو مالک، شافعی اور احمد کے نزدیک اس پر نذر کو پورا کرنا واجب ہے، جبکہ ابوحنیفہ کے نزدیک واجب نہیں، کیونکہ ان کے نزدیک صرف وہی نذر واجب ہے جب اس کی جنس شرع سے واجب ہو، رہے جمہور تو وہ ہر طاعت و نیکی کو واجب قرار دیتے ہیں، جیسا کہ بخاری ودیگر نے عائشہ رضی اللہ عنہا سے مرفوعاً روایت کیا: (( مَنْ نَذَرَ اَنْ یُطِیْعَ اللّٰہَ فَلْیُطِعْہُ، وَمَنْ نَذَرَ اَنْ یَعْصِیَ اللّٰہَ فَلَا یَعْصِہِ۔)) ’’جس نے نذر مانی کہ وہ اللہ کی اطاعت کرے گا تو وہ اس کی اطاعت کرے اور جس نے نذر مانی کہ وہ اللہ کی نافرمانی کرے گا تو وہ اس کی نافرمانی نہ کرے۔‘‘ ان دو مساجد (مسجد نبوی اور مسجد اقصیٰ) کی طرف سفر کرنا طاعت ہے۔ اسے پورا کرنا واجب ہے۔ رہا ان تین مساجد کے علاوہ کسی اور جگہ کا سفر، تو اس کی طرف سفر کو، جب اس نے اس کی نذر مانی ہو، کسی عالم نے واجب قرار نہیں دیا، حتیٰ کہ علماء نے اس کی صراحت کی ہے کہ مسجد قبا کی طرف سفر نہ کیا جائے، کیونکہ وہ ان تین میں سے نہیں، حالانکہ جو شخص مدینے میں ہو اس کے لیے اس (مسجد قبا) کی زیارت کرنا مستحب ہے، کیونکہ یہ رخت سفر باندھنے کے زمرے میں نہیں آتا جیسا کہ بیان ہوگا۔ بے شک انبیاء اور صالحین کی قبروں کی زیارت کے لیے سفر ایک بدعت ہے۔ جسے کسی صحابی نے کیا نہ کسی تابعی نے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا حکم فرمایا نہ کسی امام نے اسے مستحب قرار دیا، تو جس نے یہ اعتقاد رکھا کہ وہ ایک عبادت ہے اور اس نے اسے کیا تو وہ شخص سنت اور اجماع ائمہ کا مخالف ہے، یہ اس میں سے ہے جسے ابوعبد اللہ بن بطہ نے ’’من البدع المخالفۃ للسنۃ والإجماع‘‘ میں سے الابانۃ الصغری میں ذکر کیا ہے۔[1] دوسرے جواب کا جواب ہمارے ذمے باقی رہا جسے حافظ نے نقل کیا، ہم کہتے ہیں: وہ حدیث کے لیے کسی مخصص کے بغیر ہی تخصیص ہے، جبکہ حدیث اس سے زیادہ عموم رکھتی ہے، ہر کوئی کتاب یا سنت کے کسی عموم کی تخصیص کا دعویٰ کرسکتا ہے، لیکن یہ اس سے قبول نہ ہوگا جب تک اس پر کوئی دلیل نہ ہوگی، تو اس دعویٰ (تخصیص) پر دلیل کہاں ہے؟ اسی لیے محقق صنعانی نے ’’سبل السلام‘‘ (۲/۲۵۱) میں فرمایا:
Flag Counter