رہے وہ دوسرے دو جواب، جنھیں حافظ نے بیان کیا ہے، وہ دونوں بھی ضعیف ہیں، ان کا بیان پیش خدمت ہے:
رہا جواب اوّل، وہ حدیث اگر لفظ نفی کے ساتھ ہے تو وہ نہی کے معنی میں ہے ، جیسا کہ حافظ نے بذات خود طیبی سے بیان کیا ہے اور دو امر اس کی تائید کرتے ہیں۔
اوّل: یہ کہ وہ دوسری روایت میں نہی کی صراحت کے ساتھ ہے۔ ’’لا تشدوا‘‘۔
دوم: یہ وہ ہے جسے صحابہ نے سمجھا ہے، انھوں نے طور پر جانے سے منع فرمایا جیسا کہ بیان گزرا ہے۔
ایک تیسرا امر بھی ہے جو اسے تقویت دیتا ہے اور وہ یہ ہے کہ وہ حدیث صحیحین میں ابوسعید کی روایت سے ایک حدیث کا قطعہ ہے جس میں چار امور سے ممانعت وارد ہے:
ا: رخت سفر باندھنا۔
ب: عورت کا محرم کے بغیر سفر کرنا۔
ج: عید الفطر اور عید الاضحی کے دن روزہ رکھنا۔
د: نماز فجر اور نماز عصر کے بعد نماز پڑھنا۔
اس میں نہی تحریم کے لیے ہے، پس رخت سفر باندھنے کے متعلق نہی کو خاص طور پر نہی تنزیہی پر محمول کرنا ظاہر کے خلاف ہے، اس میں حقیقت و مجاز کے درمیان جمع کرنا ہے اور یہ صرف کسی قرینے کی وجہ سے جائز ہوتا ہے، جبکہ یہاں کوئی قرینہ نہیں اور احمد کی روایت جس سے حافظ نے استدلال کیا ہے وہ ان الفاظ کے ساتھ ہے: ’’لا ینبغی للمطي أن تعمل‘‘ یہ روایت صحیح نہیں جیسا کہ اس کا بیان کئی بار گزرا ہے، اس میں کوئی دلیل نہیں۔
پھر یہ کہ اگر وہ روایت صحیح بھی ہو تو وہ ایسے جواز کا فائدہ دیتی ہے جس میں کراہت موجود ہے، بلکہ وہ مکروہ کے بارے میں نص ہے، تب ابوسعید کی روایت کی شرح میں نووی کا یہ قول:
’’ہمارے اہل علم کے نزدیک صحیح یہ ہے کہ وہ حرام ہے نہ مکروہ۔‘‘ صحیح نہیں۔
نووی نے ابوہریرہ کی روایت کی شرح میں یہ بیان کیا ہے:
’’جمہور علماء کے نزدیک اس کا معنی ہے: ان کے علاوہ کسی اور مسجد کی طرف رخت سفر باندھنے کی کوئی فضیلت نہیں۔‘‘
یہ ان کی طرف سے تسلیم شدہ ہے کہ ان تین مساجد کے علاوہ کسی اور طرف سفر کرنے میں کوئی فضیلت نہیں، وہ کوئی عمل صالح ہے نہ کوئی نیکی ہے، اور یہ چیز معلوم ہے کہ جو بھی ان کے علاوہ کسی اور جگہ کی طرف سفر کا قصد کرتا ہے وہ اس کے ذریعے اللہ تعالیٰ کا قرب چاہتا ہے اور یہ بالاتفاق حرام ہے۔ کیونکہ اس نے ایسی چیز کے ذریعے اللہ
|