میں شہر کی خطا پر کوئی دلیل و برہان ہے؟
مزید یہ کہ اس میں ’’شہر‘‘ پر اختلاف کیا گیا ہے، پس ان میں سے بعض نے اس سے اسے بعض کے علاوہ ذکر کیا ہے جیسا کہ اس کا حدیث پر طریق چہارم عن ابی سعید کے حوالے سے کلام کے وقت بیان گزر چکا ہے۔
اسی لیے ہم نے وہاں یہی موقف اختیار کیا کہ اس روایت سے استدلال جائز نہیں۔
میرے خیال میں ایک دوسری دلیل آئی ہے جو ’’شہر‘‘ کی خطا کی تائید کرتی ہے، میں کہتا ہوں:
اس ضمن میں سے جو اس اضافے کے ضعف، بلکہ اس کے بطلان پر تمہاری راہنمائی کرتی ہے: یہ کہ شہر کی اسی روایت میں کہ ابوسعید نے اسے طور کی طرف جانے سے روکا ہے اور اسی حدیث کے ذریعے اس کے خلاف استدلال کیا ہے، اگر اس اضافے میں وہ چیز ہوتی جو اس کے معنی کو دیگر فضیلت والی جگہوں کے علاوہ صرف مساجد کے ساتھ خاص کرتی تو ابوسعید … جو کہ خالص عربی ہیں … کے لیے جائز نہ ہوتا کہ وہ اس سے استدلال کرتے، کیونکہ شہر نے تو طور کی طرف ہی جانے کا قصد کیا تھا اور وہ مسجد نہیں، وہ تو مقدس پہاڑ ہے جہاں اللہ تعالیٰ
نے موسیٰ علیہ السلام سے کلام فرمایا، لہٰذا وہ حدیث اس کو شامل نہیں خواہ اس میں اضافہ ہو، اس کا اس کی طرف جانے کا انکار اس کی اس حدیث کی طرف نسبت کے بطلان پر سب سے بڑی دلیل ہے، اور اس پر یہ بھی دلیل ہے وہ اپنے عموم پر ہے کہ وہ فضیلت والی جگہوں کو شامل ہے، کیونکہ یہ وہی ہے جسے سعید نے سمجھا، اسی طرح اس سے عبد اللہ بن عمرو اور ابوبصرہ غفاری نے سمجھا اور ابوہریرہ نے اس کی موافقت کی، ان سب نے اس حدیث سے استدلال کرتے ہوئے طور پر جانے کا انکار کیا جیسا کہ ان کی احادیث کی تخریج میں بیان ہوا، ان چاروں صحابہ… ان میں سے کوئی بھی ان کا مخالف نہیں … نے یہی سمجھا اور انھوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے جو سنا وہ اسے زیادہ جاننے والے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کو زیادہ سمجھنے والے تھے۔
پھر یہ کہ غور و فکر حدیث کے عموم کی صحت کا فیصلہ کرتا ہے، کیونکہ جب ان تین مساجد کے علاوہ کسی اور مسجد کی طرف سفر کرنے کی ممانعت ہے، جبکہ معلوم ہے کہ تمام مساجد میں عبادت کرنا غیر مساجد اور گھروں کے علاوہ عبادت کرنے سے افضل ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: ’’اللہ تعالیٰ کو تمام جگہوں سے مساجد زیادہ پسند ہیں۔‘‘ جیسا کہ بیان گزر چکا ہے اور طور کی طرف سفر کرنے کی بھی ممانعت تھی جسے اللہ نے مقدس وادی کا نام دیا، پس اس کے علاوہ کسی اور جگہ کی طرف سفر کی ممانعت تو زیادہ حق دار ہے، خاص طور پر جب انبیاء اور صالحین کی قبریں مقصود ہوں، کیونکہ ان پر مساجد بنانا حرام ہے جیسا کہ بیان گزرا ہے، پس ان کی طرف جانے کی کس طرح اجازت دی جائے، جبکہ ان مساجد کی طرف سفر کرنے کی اجازت نہیں جو اللہ کے تقویٰ پر بنائی گئی ہیں؟ اور یہ الحمد للہ واضح ہے کوئی مخفی نہیں۔
|