Maktaba Wahhabi

624 - 756
امام الحرمین اور دیگر شوافع کے نزدیک صحیح یہ ہے کہ وہ حرام نہیں اور انھوں نے حدیث کا کئی طرح سے جواب دیا ہے، ان میں سے: مراد یہ ہے کہ مکمل فضیلت صرف انہی (تین) مساجد کی طرف رخت سفر باندھنا ہے، جبکہ ان کے علاوہ میں نہیں، بے شک وہ جائز ہے، احمد کی روایت میں آیا ہے اس کا ذکر عنقریب یوں آئے گا: ’’مسافر کے لیے مناسب نہیں کہ وہ یہ کام کرے۔‘‘ اور وہ حرام نہ ہو نے میں ظاہر لفظ ہے۔ اور ان میں سے یہ کہ نہی اس کے ساتھ مخصوص ہے جس نے نذر مانی ہو کہ وہ ان تین مساجد کے علاوہ دیگر مساجد میں نماز پڑھے گا، تو اس کے لیے اسے پورا کرنا واجب نہیں۔ یہ ابن بطال کا موقف ہے۔ اور ان میں سے یہ کہ مراد صرف حکم مساجد ہے، کہ ان تین مساجد کے علاوہ کسی اور مسجد میں نماز کے قصد سے رخت سفر نہ باندھا جائے، رہا مساجد کے علاوہ قصد کرنا جیسے کسی صالح شخص یا قریبی رشتہ دار یا کسی دوست ساتھی، یا طلب علم یا تجارت یا سیر و تفریح کے لیے سفر کرنا تو وہ اس نہی میں داخل نہیں اور احمد نے شہر بن حوشب کے طریق سے جو روایت کیا وہ اس کی تائید کرتا ہے، انھوں نے کہا: میں نے ابوسعید سے سنا جبکہ ان کے پاس کوہ طور پر نماز کا ذکر کیا گیا تو انھوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’کسی نمازی[1] کے لیے مناسب نہیں کہ وہ مسجد حرام، مسجد اقصیٰ اور میری مسجد کے علاوہ کسی اور مسجد کی طرف رخت سفر باندھے کہ اس میں نماز کا قصد کیا جائے۔‘‘ اور شہر بن حوشب حسن الحدیث ہے اگرچہ اس میں قدرے ضعف ہے۔‘‘ میں کہتا ہوں: حافظ رحمہ اللہ نے یہاں ’’شہر‘‘ کے بارے میں نرمی برتی ہے اور انھوں نے اس لفظ (حسن الحدیث) کے ساتھ اس کی حدیث کو حسن قرار دیا ہے، حالانکہ انھوں نے اس پر حکم لگایا ہے کہ وہ کثیر الاوہام ہے جیسا کہ اس بارے میں پہلے بیان ہوچکا ہے، [2] جو اس طرح کا ہو اس کی حدیث کو کسی طرح حسن قرار دیا جاسکتا ہے؟ خاص طور پر جب اس کا حدیث روایت کرنے والے تمام راویوں سے تفرد ہو۔ ابوسعید کے حوالے سے تین دوسرے طرق سے وارد ہے، ان میں یہ اضافہ نہیں ہے جس سے حافظ نے استدلال کیا ہے، اور وہ ہے: ’’إِلَی مَسْجِدٍ‘‘ (مسجد کی طرف)۔ اس میں یہ اضافہ بھی کیا جائے گا کہ وہ حدیث ابوسعید کے علاوہ سات صحابہ سے ثقہ راویوں کے حوالے سے بہت طرق سے وارد ہے اور ان میں سے کسی نے بھی وہ نہیں کہا جو شہر نے کہا، تو کیا اس کے بعد بھی اس اضافے
Flag Counter