Maktaba Wahhabi

622 - 756
سے استدلال کیا اور یہ کئی صحابہ سے ثابت ہے، جیسا کہ آپ اسے میری کتاب ’’أحکام الجنائز‘‘ (ص۲۲۴۔۲۳۱) میں مفصل دیکھ سکتے ہیں، اگر وہ حدیث یعنی جو البوطی کا موقف ہے ابن عمر کی ’’طور‘‘ پر جانے کی ممانعت درست نہیں، تمھارا کیا خیال ہے بوطی کا موقف ٹھیک ہے یا ابن عمر کا؟! اپنی ہدایت و طریق کو سمجھ لو۔ اب میرا مقصد یہ نہیں کہ میں اسی مسئلے میں جو کچھ آمیزش ہے اس میں بوطی کا مناقشہ ومؤاخذہ کروں، کیونکہ اس کے لیے الگ موقع ومحل ہے، اور وہ وہ ہے جس کی طرف میں نے ’’فقہی غلطیوں‘‘ کے بیان میں اشارہ کیا اور وہ صرف اس کے شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ پر افتراء کے متعلق تنبیہ کرنا اور قارئین کو اس سے بچانا ہے کہ وہ اس جیسوں سے دھوکا نہ کھائیں۔ اللہ تعالیٰ سے درخواست ہے کہ وہ ہماری خطاؤں کی اصلاح کرے، ہماری نیتوں کو خالص رکھے اور کتاب و سنت کے مطابق عمل صالح کی توفیق بخشے۔ شیخ رحمہ اللہ نے اس مسئلے کو اپنی قیمتی کتاب ’’الثمر المستطاب فی فقہ السنۃ والکتاب‘‘ (۲/ ۵۴۹۔۵۶۷) میں تقریباً سترہ صفحات میں حدیث و فقہ کے حوالے سے بڑی تفصیل کے ساتھ بیان کیا ہے۔ ہم زیادہ تر ان نقول پر اکتفا کریں گے جو فقہی حوالے سے ہیں: ہمارے شیخ نے ’’الثمر المستطاب‘‘ (۲/۵۴۹) میں فرمایا: ان تین مساجد کے علاوہ کسی مسجد یا کسی فضیلت والی جگہ کے سفر کا قصد کرنا جائز ہے نہ اس میں نماز پڑھنا جائز ہے اور نہ ہی اس کی طرف رخ کرکے نماز پڑھنا جائز ہے، کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: ’’تین مساجد، میری یہ مسجد، مسجد حرام اور مسجد اقصیٰ کے علاوہ (ثواب کی غرض سے) رخت سفر نہ باندھا جائے۔‘‘ ایک روایت میں ہے: ’’تم رخت سفر نہ باندھو مگر ان تین مساجد کے لیے۔‘‘[1] پھر شیخ البانی رحمہ اللہ نے ’’الثمر المستطاب‘‘ (۲/۵۵۸۔۵۶۷) میں فرمایا: آپ کا فرمان ہے: ’’لَا تُشَدُّ الرِّحَالُ‘‘ حافظ [2] نے فرمایا: ’’اس کے اوّل پر ضمہ لفظ نفی کے ساتھ، اور اس سے ان کے علاوہ کسی اور طرف سفر کرنے کی ممانعت مراد ہے۔ طیبی نے فرمایا: وہ صریح نہی سے زیادہ بلیغ ہے، گویا کہ آپ نے فرمایا: یہ درست نہیں کہ ان تین جگہوں کے علاوہ زیارت کا قصد کیا جائے کیونکہ ان کو وہ اختصاص حاصل ہے جس سے ان کو مختص
Flag Counter