Maktaba Wahhabi

621 - 756
پہلی قسم سے اس کا یوں کہنا: ’’اس میں صرف ابن تیمیہ ہی نے اختلاف کیا ہے۔‘‘ بے شک یہ واضح ہے کہ اسم اشارہ ’’اس‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مسجد کی زیارت اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر کی زیارت کی طرف ہے، یہ ایک نیا جھوٹ ہے، اس میں بوطی کا اپنے اسلاف، جن کی طرف اشارہ کیا گیا ہے، کو چھوڑ کر تفرد ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مسجد کی زیارت اس ضمن میں سے ہے جس کی مشروعیت کے شیخ الاسلام بھی قائل ہیں، بلکہ وہ اس کی طرف خصوصی طور پر سفر کرنے کی مشروعیت کے بھی قائل ہیں۔ جیسا کہ بیان گزرا ہے۔ جبکہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر شریف کی زیارت کے لیے خصوصی طور پر سفر کرنے کے قائل نہیں، جبکہ بوطی کے کلام سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ اپنے سابق اسلاف کی طرح دونوں زیارتوں (زیارت مسجد نبوی، زیارت قبر شریف) میں فرق نہیں کرتا اور اس کی دلیل: اس کا اس کے بعد وہ قول ہے جو اس کے حوالے سے ابھی نقل ہوا: ’’مجموعی طور پر ابن تیمیہ رحمہ اللہ کو اس بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان: ’’لَا تُشَدُّ الرِّحَالُ إِلاَّ إِلٰی ثَلَاثَۃِ مَسَاجِدَ…‘‘ (صرف تین مساجد کے لیے ہی رخت سفر باندھا جائے…) کا سہارا ہے۔ ابن تیمیہ نے اس سے قبر شریف کے علاوہ مسجد کی طرف سفر کرنے کی مشروعیت کے اثبات کے لیے استدلال کیا ہے، بوطی ان کے استدلال کو قبول نہیں کرتا، کیونکہ اس بات کا کنایہ ہے کہ دور دراز سے جن جگہوں کے اہتمام کا زیادہ حق ہے وہ ان تین مساجد کا ہے، اس کی دلیل یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ان مساجد کی زیارت کے علاوہ بھی کئی جگہوں کی تخصیص فرماتے تھے جیسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہر ہفتے مسجد قبا کی زیارت کرنا۔‘‘ غور کریں وہ (بوطی) کس طرح سفر کے ساتھ زیارت اور سفر کے بغیر زیارت کے درمیان اشکال و اختلاط پیدا کرتا ہے۔ جبکہ اس کی (سفر کے ساتھ زیارت) کی حدیث اوّل میں ممانعت ہے اور اس (سفر کے بغیر زیارت) کا قباء کے متعلق روایت میں اثبات ہے، تو پھر ان دونوں کے درمیان کوئی تعارض نہیں جیسا کہ وہ ظاہر ہے، یہی شیخ الاسلام رحمہ اللہ کا موقف ہے، کیونکہ وہ مسجد قباء، بقیع اور شہداء کی قبروں اور دوسری قبروں کی زیارت کو مشروع قرار دیتے ہیں، لیکن وہ ان کی طرف سفر کرنے کو جائز قرار نہیں دیتے، جیسا کہ اس پر حدیث اوّل دلالت کرتی ہے، وہ دونوں حدیثوں کے قائل ہیں۔ اس اثناء میں کہ بوطی … اللہ اسے ہدایت دے … کے پاس علم ہی نہیں کہ وہ ان دونوں کے درمیان جمع و تطبیق دے سکے۔ … وہ دونوں متعارض ہوں … سوائے ان دونوں میں سے اوّل کی دلالت کو یہ کہہ کر معطل کردینے سے کہ وہ کنایہ ہے! جبکہ یہ اس کے خلاف ہے جو صحابہ اور دیگر سلف کا فہم ہے، ابن عمر رضی اللہ عنہما سے ثابت ہے کہ انھوں نے ایک آدمی کو، جس نے طور پر جانے کا ارادہ کیا تھا، منع کردیا تھا، انھوں نے اسے فرمایا: ’’طور کا خیال چھوڑ دے اور وہاں نہ جا۔‘‘ انھوں نے اس پر رخت سفر باندھنے کی ممانعت والی حدیث
Flag Counter