Maktaba Wahhabi

619 - 756
غیر اللہ کی عبادت کا ذریعہ نہ بن جائے، میرے نزدیک حق یہ ہے کہ قبر، کسی ولی کی عبادت کی جگہ اور ’’طور‘‘ نہی میں سب برابر ہیں۔‘‘ اس بحث کے آخر میں اس پر کیسی اچھی تنبیہ کی ہے کہ اس نہی میں تجارت اور طلب علم کے لیے سفر شامل نہیں، کیونکہ وہ سفر تو اس حاجت کی طلب کے لیے ہے وہ جہاں بھی ہو کسی مخصوص جگہ کے لیے نہیں، اسی طرح کسی مسلمان بھائی سے ملاقات کرنے کے لیے سفر کرنا، بلاشبہ وہ تو مقصود ہے، جیسا کہ شیخ الاسلام ابن تیمیہ نے ’’فتاوٰی‘‘ (۲/۱۸۶) میں بیان کیا۔ ہمارے شیخ رحمہ اللہ نے ’’دفاع عن الحدیث النبوی‘‘ (ص۱۰۰۔۱۰۲) میں ’’فقہ السیرۃ‘‘ (ص۵۲۰) میں البوطی کے درج ذیل بیان کی تردید کرتے ہوئے فرمایا: (البوطی نے کہا): ’’جان لیجیے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مسجد اور آپ کی قبر کی زیارت اللہ عزوجل کا قرب حاصل کرنے کا سب سے بڑا ذریعہ ہے، ہر دور میں آج تک جمہور مسلمانوں کا اس پر اجماع رہا ہے، اس مسئلے میں صرف ابن تیمیہ غفر اللّٰہ لہ نے اختلاف کیا ہے، ان کا موقف ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر کی زیارت مشروع نہیں۔‘‘ پھر اس نے اس اجماع مذکور پر چار وجوہ سے استدلال کیا ہے، ان میں سے وہ ہے جسے ابن عساکر نے روایت کیا ہے، پھر کہا: ’’جان لیجیے کہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ اپنے اس قول میں جس میں وہ منفرد ہیں اس کی کوئی صورت نہیں کہ انھوں نے کسی سبب کے بغیر ان وجوہات کی تردید کی اور یہ کہا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر کی زیارت مشروع نہیں۔‘‘ میں کہتا ہوں: اور یہ اس لے پالک کی طرف سے شیخ الاسلام رحمہ اللہ پر جھوٹ اور بہت بڑا افترا ہے، آپ کی کتب اور آپ کے فتاویٰ مسلمانوں کی قبروں کی زیارت کی مشروعیت کے عام طور پر اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر کی زیارت کی مشروعیت کے متعلق خاص طور پر، صراحت کرنے والے دلائل سے بھرپور ہیں، جیسا کہ شیخ رحمہ اللہ کی کتب سے ادنیٰ معرفت رکھنے والا شخص یہ (مشروعیت کے متعلق) جانتا ہے اور اس حوالے سے ان کی کتاب: ’’الرد علی الأخنائی‘‘ وہ شیخ کے معاصرین میں سے ہے، وہ جس پر انھوں نے شیخ پر افتراء کا رد کیا جو کہ ظلم کے ساتھ ملا ہوا تھا، اور اسی میں سے یہ تہمت ہے، جو بوطی نے اس سے یا اس جیسے افترا باندھنے والے جھوٹوں سے حاصل کی اور اس نے شیخ رحمہ اللہ کی کسی کتاب کی طرف رجوع کرنے کی زحمت گوارا نہیں کی تاکہ حقیقت امر واضح ہوجاتی، شیخ رحمہ اللہ نے ’’الرد علی الاخنائی‘‘ کے شروع میں اس کے ان پر افترا مذکورہ کا ذکر کرنے کے بعد فرمایا: ’’اور جواب دینے والا (یعنی وہ خود) میں نے ان کی کتب اور فتاویٰ کو دیکھا ہے وہ قبروں کی زیارت
Flag Counter