کہتے۔ پس نووی کی شرح مسلم میں ہے:
’’ہمارے اہل علم کے نزدیک صحیح یہ ہے کہ وہ حرام ہے نہ مکروہ۔‘‘
لہٰذا وہ حدیث ہر حال میں ان کے خلاف حجت ہے۔
۲: یہ جواب اس سے پہلے کی طرح ساقط الاعتبار ہے، کیونکہ تخصیص پر کوئی دلیل نہیں، عموم پر باقی رکھنا واجب ہے، خاص طور پر صحابہ کے فہم کے ذریعے تائید کی جنھوں نے اس حدیث کو روایت کیا؛ ابوبصرہ، ابوہریرہ، ابن عمر اور ابوسعید (اگر ان سے یہ صحیح ثابت ہو) پس ان سب نے اس کے ذریعے ’’طور‘‘ کی طرف سفر کی ممانعت پر استدلال کیا ہے، اس سے جو مراد ہے اسے دوسروں کی نسبت زیادہ جاننے والے ہیں، اسی لیے صنعانی نے ’’سبل السلام‘‘ (۲/۲۵۱) میں فرمایا:
’’جمہور کا یہ موقف ہے کہ یہ حرام نہیں اور انھوں نے ایسی چیز سے استدلال کیا ہے جو اس قابل نہیں، انھوں نے باب کی احادیث کی بہت دور کی تاویل و تعبیر کی۔ تاویل و تعبیر کرنا تب مناسب ہے کہ انھوں نے جو تاویل کی ہے اس کے خلاف کوئی دلیل قائم نہ ہو۔‘‘
’’فتح العلّام‘‘ (۱/۳۱۰) کے مؤلف نے اس کے بعد بیان کیا:
’’کوئی دلیل نہیں۔ وہ احادیث جو زیارت نبویہ کی ترغیب اور اس کی فضیلت کے بارے میں ہیں ان میں اس کی طرف رخت سفر باندھنے کے متعلق حکم نہیں، حالانکہ وہ ساری کی ساری ضعیف ہیں یا موضوع ہیں، ان میں سے کوئی بھی استدلال کے لیے درست نہیں اور بہت سے لوگ اس فرق کو نہیں سمجھ سکے جو مسئلہ زیارت اور اس کی طرف سفر کرنے کے مسئلے کے درمیان ہے، انھوں نے اس باب کی حدیث کو بلا دلیل اس کے منطوق واضح سے پھیر دیا جو اس (منطوق) کا مطالبہ ہے۔‘‘
میں کہتا ہوں: اس غفلت کے لیے جس کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔ شیخ سبکی عفا اللّٰہ عنا عنہ نے شیخ الاسلام ابن تیمیہ پر الزام لگایا کہ وہ قبر نبوی کی زیارت کا انکار کرتے ہیں، خواہ وہ رخت سفر باندھنے کے بغیر ہی ہو، حالانکہ وہ اس کے قائلین میں سے تھے اور اس کے فضل و آداب بیان کرنے والے تھے اور انھوں نے اپنی کئی عمدہ کتب [1] میں اسے نقل کیا ہے۔
اس نے اس حقیقت کے بیان کی ذمہ داری لی اور علامہ حافظ محمد بن عبدالہادی نے اپنی تالیف کبیر جس کا نام: ’’الصارم المنکی فی الرعد علی السبکی‘‘ ہے، میں سبکی کی تہمت کی تردید پیش کی ہے۔ انہوں نے اس میں ابن تیمیہ سے قبر کی طرف سفر کا قصد کیے بغیر زیارت کے جواز میں بہت سی نصوص نقل کی ہیں اور انہوں نے اس
|