سے بھی ہوتی ہے جسے احمد نے شہر بن حوشب کے طریق سے روایت کیا، اس نے کہا: میں نے ابوسعید کو سنا اور ان کے پاس طور پر نماز پڑھنے کا ذکر کیا گیا، تو انھوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’کسی سفر کرنے والے کے لیے مناسب نہیں کہ وہ تین مساجد: مسجد حرام، مسجد اقصیٰ اور میری مسجد کے علاوہ کسی اور مسجد میں نماز پڑھنے کے قصد سے رخت سفر باندھے۔‘‘ اور شہر بن حوشب حسن الحدیث ہے، اگرچہ اس میں کچھ ضعف ہے۔‘‘
میں کہتا ہوں: حافظ نے شہر بن حوشب کو حسن الحدیث کہنے میں تساہل سے کام لیا ہے، حالانکہ انھوں نے ’’التقریب‘‘ میں کہا ہے: ’’کثیر الاوہام‘‘ جیسا کہ پہلے بیان ہوا اور یہ معلوم ہے کہ جو اس طرح کا ہو تو اس کی حدیث ضعیف ہوتی ہے قابل احتجاج نہیں ہوتی، جیسا کہ حافظ نے بذات خود اسے ’’شرح النخبۃ‘‘ میں تسلیم کیا ہے۔
پھر فرض کریں کہ وہ حسن الحدیث ہے، تو وہ صرف عدم مخالفت کے وقت اس طرح ہوگا، رہا اس وقت جب اس نے ان تمام راویوں کی مخالفت کی ہے جنھوں نے اس حدیث کو ابوسعید سے روایت کیا ہے اور دوسرے راویوں کی بھی جنھوں نے اسے ان کے علاوہ دیگر صحابہ سے روایت کیا ہے جیسا کہ اس کا بیان گزر چکا ہے، لہٰذا وہ اس مخالفت کے ہوتے ہوئے کس طرح حسن الحدیث ہوسکتا ہے؟ بلکہ وہ تو اس حالت میں منکر الحدیث ہے، جس میں کسی قسم کا کوئی شک و شبہ نہیں۔
اس میں اور اضافہ کرلیں، اس کا حدیث میں یوں کہنا: ’’إلی مسجد‘‘ (کسی مسجد کی طرف) یہ اس ضمن سے ہے جو خود ’’شہر‘‘ سے بھی ثابت نہیں، اسے اس سے صرف عبدالحمید ہی نے ذکر کیا ہے جبکہ لیث بن ابو سلیم نے اسے اس سے ذکر نہیں کیا، اور یہ روایت اس سے زیادہ راجح ہے، کیونکہ وہ ثقہ راویوں کی روایت کے مطابق ہے جیسا کہ آپ نے جان لیا۔
مزید یہ کہ اس کی روایت میں غور کرنے والا، اس میں اس اضافے کے ذکر کے بطلان پر ایک اور دلیل پائے گا اور وہ اس کا یہ کہنا ہے کہ ابوسعید خدری نے اس روایت کے ذریعے ان کے کوہ طور کی طرف جانے کے لیے شہر بن حوشب کے خلاف دلیل لی ہے، اگر اس میں یہ اضافہ ہوتا جو اس کے حکم کو دیگر فضیلت والی جگہوں کے علاوہ مساجد کے ساتھ خاص کرتا ہے تو ابوسعید رضی اللہ عنہ کے لے جائز نہ ہوتا کہ وہ اس کے ذریعے اس کے خلاف دلیل لیتے، کیونکہ ’’طور‘‘ کوئی مسجد نہیں، وہ تو مقدس پہاڑ ہے جس پر اللہ تعالیٰ نے موسیٰ سے کلام فرمایا، لہٰذا وہ حدیث اس کو شامل نہیں خواہ وہ اضافہ اس میں ثابت ہو، اور ابوسعید کا اس سے استدلال کرنا جبکہ یہ حالتِ وہم ہو تو یہ کوئی معقول نہیں کہ ’’شہر، اور اس کے رفقاء اس پر خاموش رہیں۔
تو یہ سب اس اضافے کے بطلان کی تائید کرتا ہے اور یہ کہ اس کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی اصل نہیں۔
جو کچھ بیان ہوا اس سے ثابت ہوا کہ اس میں کوئی دلیل نہیں کہ وہ حدیث کو مساجد کے ساتھ خاص کرے، لہٰذا
|