آپ کی مسجد میں ان کے پیچھے نماز پڑھتے، اور ان میں سے کوئی بھی حجرے کے اندر جاتا نہ اس سے باہر مسجد میں کھڑا ہوتا، دعا کے لیے نہ نماز کے لیے اور نہ ہی سلام کے لیے اور نہ کسی اور کام کے لیے، وہ آپ کی سنت سے واقف تھے جیسا کہ صحابہ اور تابعین نے انہیں بتایا تھا۔‘‘
اسی طرح ان کی کتاب ’’الجواب الباہر فی زوار المقابر‘‘ (ص ۶۰۔ الطبعۃ السلفیۃ) میں ہے۔
دوم: ان کا الأخنائی کے رد پر (ص۴۵) بیان:
’’رہا وہ جو گمان کیا جاتا ہے کہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر کی زیارت ہے، مثلاً: سلام و دعا کے لیے حجرے کے باہر کھڑا ہونا، تو یہ مدینہ والوں کے لیے مستحب نہیں، بلکہ انہیں اس سے روکا جائے گا، کیونکہ مہاجرین وانصار میں سے سابقین اولین اور خلفاء راشدین وغیرھم پانچوں نمازوں وغیرہ کے لیے آپ کی مسجد میں آیا کرتے تھے، اور قبر مسجد کی دیوار کے پاس ہی تھی، وہ اس طرف نہیں جاتے تھے اور اس کے پاس بھی کھڑے نہیں ہوتے تھے۔ مالک اور دیگر علماء نے اسے ذکر کیا، انھوں نے ذکر کیا کہ وہ مستحب نہیں، بلکہ مدینہ میں رہنے والوں کے لیے سلام وغیرہ کے لیے قبر کے پاس کھڑا ہونا مکروہ ہے، کیونکہ صحابہ جب پانچوں نمازوں وغیرہ کے لیے مسجد میں تشریف لاتے تھے تو وہ یہ عمل نہیں کیا کرتے تھے، اسی طرح خلفاء راشدین ابوبکر، عمر، عثمان اور علی رضی اللہ عنہم [1] کے دور میں وہ لوگوں کو مسجد میں نماز پڑھاتے تھے، لوگ مختلف شہروں سے آتے اور ان کے ساتھ نماز پڑھا کرتے تھے اور یہ معلوم ہے کہ اگر ان کے لیے مستحب ہوتا کہ وہ قبر کے سامنے کھڑے ہوں، سلام کریں یا دعا کریں! اس کے علاوہ کوئی کام کریں تو وہ یہ ضرور کرتے، اگر وہ ایسا کرتے تو پھر یہ عمل عام ہوتا اور مشہور و معروف ہوتا، لیکن مالک ودیگر نے اسے سفر کے ساتھ خاص کیا ہے، جیسا کہ ابن عمر سے منقول ہے۔
قاضی عیاض نے فرمایا: مالک نے فرمایا: جو شخص سفر سے آئے یا سفر پر روانہ ہو تو اس کے لیے کوئی مضائقہ نہیں کہ وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر کے پاس کھڑا ہو، آپ پر درود پڑھے، اور آپ اور ابوبکر و عمر کے لیے دعا کرے۔ ان سے کہا گیا: مدینہ والے تو سفر سے آتے ہیں نہ اس (سفر) کا ارادہ رکھتے ہیں، وہ بھی دن میں ایک بار یا زیادہ بار ایسے کرتے ہیں، بسااوقات وہ جمعہ میں کھڑے ہوتے ہیں اور باقی دنوں میں ایک مرتبہ، دو مرتبہ یا اس سے زیادہ مرتبہ قبر کے پاس کھڑے ہوتے ہیں اس وقت سلام پیش کرتے ہیں اور دعا کرتے ہیں۔ انھوں نے فرمایا: ہمارے مشہور اہل فقہ سے مجھ تک یہ نہیں پہنچا، اسے ترک کرنے میں وسعت ہے، اس امت کے آخری فرد کی اصلاح اس چیز سے ہوگی جس نے اس کے
|