صلوٰۃ وسلام کے لیے دائمی قصد، تو میں کسی کو نہیں جانتا کہ اس نے اس کی رخصت دی ہو۔‘‘
میں نے کہا: یہ رخصت جسے شیخ نے بعض اہل علم سے نقل کیا ہے، یہی ہمارا موقف ہے اور ہم قید مذکور کی شرط کے ساتھ اس پر اعتماد کرتے ہیں، مدینہ میں رہنے والے کے لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر سلام پیش کرنے کے لیے کبھی کبھار قبر شریف پر آنا جائز ہے، کیونکہ یہ عید/ میلہ بنانے کے زمرے میں نہیں آتا جیسا کہ ظاہر ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر اور آپ کے دونوں صحابہ پر سلام پیش کرنا عمومی دلائل سے مشروع ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی قبر کو جو میلہ بنانے سے منع کیا ہے اس سے مطلق مشروعیت کی نفی جائز نہیں، اس لیے کہ ہم نے جو شرط ذکر کی ہے اس کی جمع و تطبیق کا امکان ہے اور صرف اس بنیاد پر اس کی مخالفت نہیں کی جا سکتی کہ ہم سلف میں سے کسی کو نہیں جانتے کہ وہ یہ کرتے ہوں، کیونکہ کسی چیز کے متعلق عدمِ علم سے اس کا نہ ہونا لازم نہیں آتا، جیسا کہ علماء بیان کرتے ہیں، اس طرح کے معاملے میں اس کی مشروعیت کے اثبات کے لیے عمومی دلائل ہی کافی ہیں، جب تک ایسی چیز ثابت نہ ہو جو ہمارے موقف کے خلاف ہو، مزید یہ کہ شیخ الاسلام نے ’’القاعدۃ الجلیلۃ‘‘ (ص ۸۰۔ طبع المنار) میں نافع سے ذکر کیا
ہے کہ انہوں نے کہا: ابن عمر قبر پر سلام کیا کرتے تھے، میں نے انہیں سو یا اس سے زائد بار قبر کی طرف آتے ہوئے دیکھا، وہ کہتے: ’’السلام علی النبی صلی اللہ علیہ وسلم السلام علی ابی بکر، السلام علی ابی‘‘[1] اور پھر چلے جاتے، اس سے یہی ظاہر ہوتا ہے کہ وہ یہ حالت اقامت میں کیا کرتے تھے نہ کہ سفر میں کیونکہ ان کا یہ کہنا: ’’سو مرتبہ‘‘ اس اثر کو سفر پر محمول کرنے سے بعید کر دیتا ہے۔
اور ہمارے شیخ رحمہ اللہ نے اپنی کتاب ’’الدفاع عن الحدیث النبوی‘‘ (۹۲-۹۴) میں بوطی پر اپنے رد کے سلسلے میں فرمایا:
اس نے (ص ۵۲۱) کہا، [2] جبکہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر کی زیارت کی مشروعیت پر دلالت کرنے والی وجوہ بیان کر رہا تھا:
’’دوسری وجہ: جو صحابہ، تابعین اور ان کے بعد والوں کے اجماع سے ثابت ہے کہ وہ جب بھی روضہ شریف کے پاس سے گزریں تو وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر کی زیارت کریں اور آپ پر سلام پیش کریں، اسے بلند مرتبہ ائمہ اور جمہور علماء نے روایت کیا، ابن تیمیہ رحمہ اللہ ان میں شامل ہیں۔‘‘
میں کہتا ہوں: یہ بلند مرتبہ ائمہ پر جھوٹ اور بہتان ہے، خاص طور پر شیخ الاسلام ابن تیمیہ پر، ان میں سے کسی ایک نے بھی ان مذکورہ ہستیوں سے یہ روایت نہیں کیا کہ وہ جب بھی روضے کے پاس سے گزرتے تھے تو وہ قبر
|