Maktaba Wahhabi

606 - 756
کے بارے میں بیان ہوا ہے، آپ (یعنی احمد) نے فرمایا: اس معاملے میں بہت سے لوگ انتہائی زیادہ افراط کا شکار ہوئے ہیں۔ اور انہوں نے وہ ذکر کیا جو حسین کی قبر کے پاس ہوتا ہے، پھر شیخ نے فرمایا: مصر میں نفیسہ اور دیگر کی قبر کے پاس جو کچھ کیا جاتا ہے، جو کچھ عراق میں اس قبر کے پاس کیا جاتا ہے جسے کہا جاتا ہے کہ یہ علی رضی اللہ عنہ کی قبر ہے اور حسین کی قبر اور حذیفہ بن یمان کی قبر اور … اور … اور جو کچھ ابو یزید بسطامی کی قبر کے پاس کیا جاتا ہے اور اکثر اسلامی ممالک میں جو کچھ بہت سی قبروں کے پاس کیا جاتا جن کا شمار کرنا ممکن نہیں سب اس میں شامل ہے، انہوں نے کہا: وقت معین میں ان قبور کے قصد کو معمول بنانا اور وقت معین میں ان کے پاس مستقل اجتماع منعقد کرنا، انہیں عید/ میلہ بنانا ہے جیسا کہ بیان ہو چکا ہے، میں اس بارے میں اہل علم مسلمانوں کے درمیان کوئی اختلاف نہیں جانتا، اور بگڑی ہوئی عادات کی کثرت سے دھوکا نہیں کھانا چاہیے کیونکہ یہ یہود ونصاریٰ کے ساتھ مشابہت اختیار کرنے کے ضمن سے ہے، جس کے متعلق نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں بتایا کہ وہ اس امت میں ہونے والا ہے، اس میں اصل اس کے پاس دعا کی فضیلت کا اعتقاد ہے، ورنہ اگر یہ اعتقاد دلوں میں قائم نہ ہو تو یہ سب ختم ہو جائے، جب اس کا قصد ان مفاسد کا باعث بنے تو وہ حرام ہے جیسے اس کے پاس نماز، اور یہ مخلوق کے لیے فتنے، شرک کا دروازہ کھولنے اور ایمان کا دروازہ بند کرنے کا باعث ہے۔‘‘ میں کہتا ہوں[1] : اس ضمن میں جو چیز سب سے پہلے داخل ہوئی ہے، وہ جو آج مدینہ منورہ میں نظر آتی ہے، وہ لوگوں کا ہر فرض نماز کے بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر کا قصد کرنا تاکہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر سلام پیش کریں، آپ کی قبر کے پاس دعا کریں اور آپ سے دعا کریں، وہ آپ کے پاس آوازیں بلند کرتے ہیں، حتیٰ کہ ان کی وجہ سے مسجد گونج جاتی ہے، خاص طور پر حج کے موسم میں حتیٰ کہ یہ صورت ہوتی ہے گویا کہ وہ نماز کی سنن میں سے ہے، بلکہ وہ اس کی پابندی ان سنن کی پابندی سے بھی زیادہ کرتے ہیں اور یہ سب حکمرانوں/ ذمہ داروں کی نگاہوں کے سامنے ہوتا ہے، وہ اسے سنتے ہیں اور ان میں سے کوئی ایک بھی روکتا نہیں، انا للّٰہ وانا الیہ راجعون، اور دین کی اور دین داروں کی اجنبیت پر افسوس اور یہ سب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی مسجد میں ہوتا ہے، جس کی شان تو یہ ہے کہ اسے مسجد حرام کے بعد باقی تمام مساجد سے ایسے امور، جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شریعت کے خلاف ہوں، سے بہت دور ہونا چاہیے۔ اور یہ شیخ الاسلام ابن تیمیہ کے کلام میں بیان ہو چکا کہ بعض اہل علم نے اس بات کی اجازت دی ہے کہ جب کوئی شخص مسجد میں نماز وغیرہ کے لیے آئے تو وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر سلام پیش کرنے کے لیے قبر شریف پر آسکتا ہے گویا کہ یہ عدم کثرت اور عدم تکرار کی قید وشرط کے ساتھ ہے، اس کی دلیل ان کا اس کے بعد یوں کہنا ہے: ’’رہا اس کا
Flag Counter