ابوالفرج ابن الجوزی، اور میں کسی صحابی سے یاد رکھتا ہوں نہ کسی تابعی سے اور نہ کسی معروف امام سے کہ انہوں نے قبروں کے پاس دعا کرنے کے لیے ان کا قصد کرنے کو مستحب قرار دیا ہو اور نہ ہی کسی نے اس بارے میں کچھ روایت کیا ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے نہ آپ کے اصحاب سے اور نہ ہی کسی معروف امام سے، لوگوں نے دعا، اس کے اوقات اور اس کی جگہوں کے متعلق کتابیں لکھی ہیں اور ان میں آثار ذکر کیے ہیں، لیکن میری معلومات کے مطابق ان میں سے کسی ایک نے بھی قبروں کے پاس دعا کرنے کی فضیلت کے بارے میں ایک حرف بھی نہیں لکھا، یہ کس طرح جائز ہو سکتا ہے جبکہ اس کی حالت یہ ہے کہ دعا اس کے نزدیک افضل اور زیادہ قبول ہونے والی ہو، اور سلف اس کا انکار کرتے ہوں اور اسے نہ جانتے ہوں، وہ اس سے روکتے ہوں اور اس کا حکم نہ دیتے ہوں، انہوں نے کہا:
اس کے پاس دعا کی قبولیت کے اعتقاد اور اس کی فضیلت نے واجب کر دیا کہ وہاں جایا جائے اور اس کا قصد کیا جائے، بسا اوقات معین موقع پر تو وہاں بہت زیادہ اجتماعات ہوتے ہیں، جبکہ یہ بھی بعینہٖ وہی ہے جس سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے فرمان کے ذریعے منع فرمایا ہے: ’’لَا تَتَّخِذُوْا قَبْرِی عِیْدًا‘‘ ’’میری قبر کو میلہ نہ بنا لینا۔‘‘
انہوں نے بیان کیا: حتیٰ کہ بعض قبریں ایسی ہیں کہ سال میں ایک دفعہ وہاں اکٹھ ہوتا ہے اور محرم یا رجب یا شعبان یا ذوالحج وغیرہ کے مہینے میں اس کی طرف سفر کیا جاتا ہے، ان میں سے بعض ایسی ہیں جہاں عاشوراء کے دن اکٹھ ہوتا ہے، بعض کے نزدیک عرفہ کے دن اور بعض کے نزدیک پندرہ شعبان کو، اور بعض کے نزدیک کسی اور وقت میں، اس حیثیت سے کہ اس کے لیے سال میں ایک دن معین ہے جس میں اس کا قصد کیا جاتا ہے اور اس روز وہاں اکٹھ ہوتا ہے، جیسا کہ سال کے معلوم ایام میں عرفہ، مزدلفہ اور منیٰ کا قصد کیا جاتا ہے، جیسا کہ دونوں عیدوں کے دن شہر کی عیدگاہ کا قصد کیا جاتا ہے، بلکہ بسا اوقات ان اجتماعات کا دین و دنیا میں سب سے زیادہ اہتمام کیا جاتا ہے، اور بعض ایسی قبریں بھی ہیں جن کی طرف معین وقت میں یا غیر معین وقت میں شہروں سے کوچ کیا جاتا ہے تاکہ وہاں جا کر دعا کی جائے اور عبادت کی جائے، جیسا کہ اس مقصد (دعا و عبادت) کے لیے بیت اللہ الحرام کا قصد کیا جاتا ہے، اور یہ سفر میں نہیں جانتا کہ اس کی ممانعت کے بارے میں مسلمانوں کے درمیان کوئی اختلاف ہو، انہوں نے کہا: اور ان میں سے کچھ ایسی قبریں بھی ہیں جن کا ہفتے میں کسی معین دن میں قصد کیا جاتا ہے۔[1]
مجموعی طور پر یہ جو ان قبروں کے پاس کیا جاتا ہے، وہ بعینہٖ وہی ہے جس سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اس فرمان کے ذریعے منع کیا ہے: ((وَلَا تَتَّخِذُوْا قَبْرِی عِیْدًا)) ’’میری قبر کومیلہ نہ بنا لینا۔‘‘ کیونکہ کسی معین جگہ کا معین وقت میں قصد کا معمول بنا لینا اور ہر سال یا ہر ماہ یا ہر ہفتے کے بعد وہاں حاضری دینا، وہ بعینہٖ عید کے معنی میں ہے، پھر اس کے ہر چھوٹے بڑے عمل سے ممانعت ہے، یہ وہی ہے جو امام احمد رحمہما اللہ کے حوالے سے ان کے انکار
|