جب وہ نماز وغیرہ کے لیے مسجد میں داخل ہو۔‘‘
رہا اس کا ہمیشہ صلاۃ و سلام کے لیے قصد کرنا، تو میں کسی کو نہیں جانتا کہ اس نے اس کی رخصت دی ہو، کیونکہ یہ اسے میلہ بنانے کی نوع میں سے ہے… اس کے باوجود کہ ہمارے لیے مشروع ہے کہ جب ہم مسجد میں داخل ہوں تو ہم یوں کہیں: ’’السلام علیک ایہا النبی ورحمۃ اللہ و برکاتہ‘‘[1] جیسا کہ ہم اسے اپنی نماز کے آخر میں کہتے ہیں، انہوں نے کہا: مالک اور ان کے علاوہ دیگر کو اس بات کا اندیشہ ہوا کہ قبر کے پاس ہر گھڑی ایسا کرنا قبر کو عید (میلہ) بنانے کی نوع سے نہ ہو، اور یہ بھی کہ یہ بدعت ہے، ابوبکرو عمراور عثمان رضی اللہ عنہم کے عہد میں مہاجرین و انصار ہر روز مسجد نبوی میں آیا کرتے تھے، ان کو اس بات کا علم تھا جسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ناپسند کرتے تھے اور آپ نے جس چیز سے انہیں منع فرمایا وہ اس سے آگاہ تھے، وہ مسجد میں آتے اور وہاں سے نکلتے وقت اور تشہد میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر سلام پڑھا کرتے تھے۔ جیسا کہ وہ اسی طرح آپ کی حیات میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر سلام پڑھا کرتے تھے۔ مالک نے کیا خوب فرمایا ہے:
(( لَنْ یُصْلِحَ آخِرَ ہٰذِہِ الْأُمَّۃِ اِلاَّمَا أَصْلَحَ أَوَّلَہَا۔))
’’اس امت کے آخری فرد کی اصلاح وہی چیز کرے گی جس نے اس کے پہلے فرد کی اصلاح کی تھی۔‘‘
لیکن جیسے جیسے امتوں کا اپنے انبیاء کی تعلیمات اور ان کے احکام سے تمسک کمزور ہوتا گیا اور ان کا ایمان کمزور ہوتا گیا تو اس کے بدلے میں وہ بدعات وشرک وغیرہ کو اختیار کرتے گئے، اسی لیے امت نے قبر کے استلام اور اسے بوسہ دینے کو مکروہ جانا ہے، [2] اور انہوں نے اسے ایک عمارت بنا لیا، لوگوں کو اس کی طرف رخ کر کے نماز پڑھنے سے منع کیا، فرمایا:
ہم نے احمد اور دیگر سے ذکر کیا، کہ انہوں نے اس شخص کو، جس نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے دونوں ساتھیوں (ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما ) پر سلام پیش کیا پھر اس نے دعا کرنے کا ارادہ کیا، حکم فرمایا کہ وہ مڑے اور قبلہ کی طرف رخ کرے، اور اسی طرح سے علماء نے اس کا انکار کیا، جیسے مالک ودیگر اور متاخرین میں سے، جیسے: ابوالوفاء بن عقیل،
|