Maktaba Wahhabi

598 - 756
مساجد میں نماز ودعا سے افضل ہے جو قبروں سے خالی ہیں، بلکہ مسلمان علماء کا اس پر اتفاق ہے کہ ان مساجد میں نماز و دعا کرنا جو قبروں پر نہیں بنائی گئیں، ان مساجد میں نماز و دعا سے افضل ہے جو کہ قبروں پر بنائی گئی ہیں، بلکہ ان میں نماز و دعا سے منع کیا گیا ہے اور وہ مکروہ ہے اس پر ان کا اتفاق ہے۔ ان میں سے اکثر نے اس کی حرمت کی تصریح کی ہے، بلکہ اس میں نماز کے ابطال کی صراحت کی ہے خواہ اس میں نزاع ہو، یہاں مقصود یہ ہے کہ یہ واجب ہے نہ مستحب اور اس پر ان کا اتفاق ہے، بلکہ ان کا اس کے مکروہ ہونے پر اتفاق ہے۔‘‘ اور شیخ الاسلام نے ’’الجواب الباہر فی زوارالمقابر‘‘[1] میں فرمایا: ’’آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مسجد کے علاوہ قبروں پر بنائی گئی مساجد میں نماز پڑھنے کی مطلق ممانعت ہے، کیونکہ اس میں ایک نماز ہزار نماز (کے برابر) ہے، اس کی اساس تقویٰ پر رکھی گئی ہے، اس کی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات میں اور آپ کے خلفاء راشدین کی حیات میں حجرے کے اس میں شامل کرنے سے پہلے بھی حرمت تھی۔‘‘ پھر فرمایا: ’’اگر کوئی عقیدہ رکھے کہ قبر سے پہلے اس کی کوئی فضیلت نہ تھی، اور جب ولید کی خلافت میں حجرے کو مسجد میں شامل کیا گیا تب اس (مسجد نبوی) کو فضیلت حاصل ہوئی، تو ایسا شخص جاہل اور جہالت میں حد سے بڑھنے والا یا آپ علیہ السلام کی لائی ہوئی شریعت کا انکار کرنے والاا ور اس کی تکذیب کرنے والا ہے، وہ قتل کا مستحق ہے۔‘‘ شیخ الاسلام رحمہ اللہ نے قبروں پر بنائی گئی مساجد میں نماز کی کراہت کے متعلق کئی بار فتویٰ دیا ہے، آپ کے ’’فتاویٰ‘‘ (۱/۱۰۷) میں یوں منقول ہے: مسئلہ:… اس مسجد کے بارے میں جب کہ اس میں قبر ہو اور لوگ باجماعت نماز کے لیے اس میں جمع ہوتے ہوں، تو کیا اس میں نماز جائز ہے یا نہیں؟ کیا قبر کو برابر کر دیا جائے گا یا نہیں؟ جواب:… ائمہ کا اس پر اتفاق ہے کہ کسی قبر پر مسجد نہ بنائی جائے، کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’تم سے پہلے لوگ قبروں پر مساجد بنایا کرتے تھے، سن لو! تم قبروں کو مساجد نہ بنانا، میں تمہیں اس سے منع کرتا ہوں۔‘‘ اور یہ
Flag Counter