Maktaba Wahhabi

599 - 756
کہ میت کو مسجد میں دفن کرنا جائز نہیں، اگر مسجد دفن کرنے سے پہلے تھی تو اس کو تبدیل کیا جائے گا، یا تو قبر کو برابر کرکے یا اگر اسے نیا نیا دفن کیا گیا ہو تو اس کو اکھاڑ کر، اگر مسجد کی تعمیر دفن کرنے کے بعد ہو، تو پھر یا تو مسجد کو ختم کیا جائے گا، یا پھر قبر کی صورت کو ختم کیا جائے گا، قبر پر بنائی گئی مسجد میں فرض پڑھے جائیں گے نہ نفل، کیونکہ اس سے منع کیا گیا ہے۔واللّٰہ اعلم‘‘ ان کا اسی مانند ایک اور فتویٰ ہے۔ اگر آپ چاہیں تو اسے (۲/ ۱۹۲)[1] میں دیکھیں۔ مولانا محمد یحییٰ کاندھلوی ہندی حنفی رحمہ اللہ نے اپنی کتاب ’’الکوکب الدری علی جامع الترمذی‘‘ (ص۱۵۳) میں بیان کیا اس کی نص یہ ہے: ’’رہا ان (قبروں) پر مساجد بنانا تو اس میں یہود سے ان کے اپنے انبیاء اور اپنے بڑوں کی قبروں پر مساجد بنانے کے حوالے سے مشابہت ہے، نیز یہ کہ اس میں میت کی تعظیم اور اصنام کی بندگی سے مشابہت ہے خواہ قبر قبلہ کی جانب ہو اور اس کے قبلے کی جانب ہونے میں جو کراہت ہے وہ اس کے دائیں یا بائیں ہونے کی کراہت سے زیادہ شدید ہے، اور اگر وہ نمازی کے پیچھے ہو تو اس کی کراہت سب سے کم ہے لیکن وہ بھی کراہت سے خالی نہیں۔‘‘ حافظ نے ’’الفتح‘‘ (۳/ ۱۵۶) میں اور عینی نے ’’العمدۃ‘‘ (۴/۱۴۹) میں فرمایا: ’’بے شک قبر جب قبلے کی جہت میں ہو تو اس کی کراہت بڑھ جاتی ہے۔‘‘ اس مسئلے میں حسب تفصیل حق ہے جسے الہندی نے ذکر کیا ہے، اور اس کا مرجع یہود ونصاریٰ سے ان کی ان مساجد میں نماز سے مشابہت اختیار کرنا ہے جو قبروں پر بنائی گئی ہوں اور مشابہت تمام صورتوں میں حاصل ہے جنہیں ذکر کیا گیا ہے اور وہ بالکل واضح ہیں اور یہ اس کے لیے ہے جو اس میں نماز کا قصد نہ کرتا ہو، رہا قصد کرنے والا تو اسے سنیں جسے فقیہ ابن حجر ہیثمی نے اپنی کتاب ’’الزواجر‘‘ (۱/ ۱۲۱) میں نقل کیا ہے: ’’بعض حنابلہ نے کہا: آدمی کا کسی قبر کے پاس اس سے برکت حاصل کرنے کے قصد سے نماز پڑھنا اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی عین مخالفت اور دین میں ایسا کام جاری کرنا ہے جس کا اللہ نے حکم
Flag Counter