میں ہے، بلکہ وہ اس (قبر کی طرف رخ کرکے نماز پڑھنے) سے (مکروہ تحریمی کا) زیادہ حق دار ہے، یہ اس ضمن سے ہے جس میں مکہ والے آزمائش کا شکار ہوئے، جب وہ جنازے کو کعبہ کے پاس رکھتے تھے اور پھر اس کی طرف رخ کرتے تھے۔‘‘
ہمارے شیخ رحمہ اللہ نے ’’تحذیر الساجد‘‘ (ص ۳۴۔۳۵)، ’’الجنائز‘‘ (ص۲۷۹) اور ’’الثمر المستطاب‘‘ (۱/۳۸۱) میں بیان فرمایا:
فقیہ ہیتمی رحمہ اللہ نے ’’الزواجر‘‘ (۱/۱۲۰۔۱۲۱) میں فرمایا:
’’کبیرہ: ۹۳: ’’قبروں کو سجدہ گاہ بنانا ہے…‘‘ انھوں نے کہا: ’’اسے کبائر میں شمار کرنا بعض شوافع کے کلام میں واقع ہوا ہے، گویا کہ انھوں نے اسے اس سے اخذ کیا جو انھوں نے ان احادیث سے اخذ کیا اور اس کی وجہ واضح ہے، کیونکہ انھوں نے اپنے انبیاء کی قبروں کے ساتھ ایسا کرنے والے پر لعنت کی ہے اور جس نے اپنے صالحین کی قبروں کے ساتھ اس طرح کیا انھیں قیامت کے دن اللہ کے ہاں بدترین مخلوق قرار دیا، اس میں ہمیں ڈرایا گیا ہے، جیسا کہ ایک روایت میں ہے: ’’ یُحَذِّرُ مَا صَنَعُوا‘‘ ’’انھوں نے جو کیا آپ اس سے ڈراتے تھے‘‘ یعنی وہ اپنی امت کو اپنے فرمان کے ذریعے ڈراتے تھے، کہ کہیں وہ ایسا کام نہ کریں جو انھوں نے کیا، ورنہ ان پر لعنت کی جائے گی جس طرح ان پر لعنت کی گئی… بعض حنابلہ نے کہا: کسی آدمی کا قبر کے پاس نماز پڑھنے سے برکت حاصل کرنے کا قصد کرنا اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی صریح مخالفت کرنا ہے، اور دین میں ایسی بدعت ایجاد کرنا ہے جس کی اللہ نے اجازت نہیں دی، اس لیے کہ اس کی ممانعت ہے اور پھر اس کی ممانعت پر اجماع ہے، اس (قبر) کے پاس نماز پڑھنا، اسے سجدہ گاہ بنانا یا اس پر عمارت تعمیر کرنا سب سے بڑی ممانعت (حرمت) اور شرک کا سب سے بڑا ذریعہ ہے، کراہت کے متعلق قول اس کے علاوہ پر محمول ہے، علماء کے متعلق کسی فعل کے جواز کا گمان نہ کیا جائے جس کے کرنے والے پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے لعنت متواتر ثابت ہو، اسے گرانا اور ان قبروں پر بنائے گئے گنبدوں کو گرانا واجب ہے جبکہ وہ مسجد ضرار سے بھی زیادہ نقصان دہ ہیں، کیونکہ ان کی بنیاد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی معصیت پر رکھی گئی ہے، آپ نے اس سے منع کیا ہے اور اونچی قبروں کو گرانے کا حکم فرمایا، قبر سے ہر قندیل یا چراغ کو مٹانا واجب ہے، اس کے لیے وقف و نذر صحیح نہیں۔‘‘
۱۶۴: قبر کے پاس دعا کرنے کا قصد کرنا اور اجابت کی امید رکھنا: [1]
|