پہنچتا ہے، جیسا کہ مجدد ابن تیمیہ نے اس باب کے لیے یہ عنوان قائم کیا ہے: ’’باب وصول ثواب القرب المہداۃ إلی الموتی‘‘ مردوں کو ان نیک اعمال کا ثواب پہنچنے کا بیان جو انہیں بخشا جاتا ہے۔‘‘ صحیح نہیں، کیونکہ وہ دعویٰ دلیل سے خالی ہے، انھوں نے ایسی کوئی دلیل پیش نہیں کی جو مردوں کے عمومی انتفاع پر عمومی طور پر دلالت کرتی ہو، عمومی اعمال خیر جو زندوں کی طرف سے انہیں پہنچائے جاتے ہیں، امور خاص میں شائد ہو، شوکانی نے اسے ’’نیل الاوطار‘‘ (۴/۷۸۔۸۰) میں ذکر کیا، پھر مصنف (شیخ الالبانی) نے اپنی کتاب ’’أحکام الجنائز وبدعھا‘‘ میں ذکر کیا، الحمد للّٰہ، اللہ نے اس کی طباعت کو آسان بنایا، اس میں سے مُردوں کے لیے دعا ہے، کیونکہ وہ ان (مردوں) کے لیے نفع مند ہے، جب اللہ تبارک و تعالیٰ اسے قبول فرمالے؛ پس اسے یاد رکھیں اس طرح آپ اس مسئلے میں افراط و تفریط سے بچ جائیں گے۔
اس کا خلاصہ: اولاد کے لیے جائز ہے کہ وہ اپنے والدین کی طرف سے صدقہ کریں، روزہ رکھیں، حج و عمرہ کریں اور قرآن پڑھیں، کیونکہ وہ ان دونوں (والدین) کی سعی و کوشش سے ہیں، جبکہ ان دونوں (والدین) کے علاوہ اسے کسی اور کے لیے یہ امور بجالانا جائز نہیں، مگر وہ جسے دلیل نے خاص کیا ہو… واللہ اعلم۔
انھوں نے ’’الضعیفۃ‘‘ (۲/۳۰۹) میں حدیث رقم (۹۰۷)[1] کے تحت بیان کیا:
’’جو شخص یہ موقف رکھتا ہے کہ جب کوئی عمل کرنے والا اپنے عمل کا ثواب کسی دوسرے کو ہبہ کردیتا ہے تو وہ ثواب اس کے دوسرے شخص کو پہنچ جاتا ہے وہ اس روایت سے استدلال کرتا ہے، جبکہ وہ اللہ تعالیٰ کے اس فرمان: ﴿وَاَنْ لَّیْسَ لِلْاِِنسَانِ اِِلَّا مَا سَعٰی﴾ (النجم:۳۹) (انسان کو وہی کچھ ملتا ہے جس کے لیے وہ کوشش کرتا ہے۔) اور ان احادیث کے خلاف ہے جو اس معنی میں ہیں…‘‘
اور ہمارے شیخ نے ’’العقیدۃ الطحاویۃ‘‘ (ص۸۰) پر اپنی تعلیق و شرح میں اس مسئلے کی طرف مختصر سا اشارہ کیا ہے۔
۱۶۱: اعمال کا ثواب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بخشنا:
’’القاعدۃ الجلیلۃ‘‘ (۳۲،۱۱۱)، ’’الاختیارات العلمیۃ‘‘ (۵۴)، ’’شرح عقیدۃ الطحاوی‘‘ (۳۸۶۔ ۳۸۷)، ’’تفسیر المنار‘‘ (۸/۲۴۹، ۲۵۴، ۲۷۰، ۳۰۴۔۳۰۸)۔ ’’أحکام الجنائز‘‘ (۳۲۷/۱۶۱)، ’’تلخیص الجنائز‘‘ (۱۰۶/۱۶۱)۔
۱۶۲: قرآن خوانی کرنے اور اس کا ثواب میّت کو بخشنے والے کو اجرت دینا:
’’فتاوی شیخ الاسلام‘‘ (۳۵۴)، ’’أحکام الجنائز‘‘ (۳۲۷/۱۶۲)، ’’تلخیص
|