Maktaba Wahhabi

552 - 756
حکم سے ہدایت یافتہ ہوجاؤ گے، کیونکہ سلف صالحین رضی اللہ عنہم کا اسی پر عمل رہا ہے، اسی لیے ان مقامات زیارت کا ان کے ہاں کوئی ذکر نہیں، بلکہ وہ ان مقامات کا بھی قصد نہیں کرتے تھے جہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بنفس نفیس نماز پڑھی ہے۔ اس مقام کو تو چھوڑیے جہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ دیگر انبیاء کرام علیہم السلام کا مقام اور جگہ ہے، وہ مقامات جن کی ان کی طرف نسبت شائد ہی ثابت ہو۔ مثلاً یہ جبل طور ہے، یہ وہ پہاڑ ہے جہاں اللہ کے نبی موسیٰ اپنے رب سے مناجات کے لیے کھڑے ہوئے: ﴿وَ کَلَّمَ اللّٰہُ مُوْسٰی تَکْلِیْمًا﴾ (النساء:۱۶۴) ’’اللہ نے موسیٰ سے کلام فرمایا۔‘‘ اس کے باوجود وہاں جاکر نماز پڑھنے اور دعا کرنے کا قصد کرنا جائز نہیں، اسی طرح دوسری عبادات ہیں، اس لیے کہ سلف نے اس کا قصد نہیں کیا، اور خلف نے سلف سے یہی حاصل کیا ہے کہ اس کا میری معلومات کی حد تک آج تک قصد نہیں کیا گیا، بلکہ بعض صحابہ رضی اللہ عنہم سے اس بارے میں ممانعت ثابت ہے جس وقت ان میں سے کسی کو اس کے جواز کا خیال آیا، قزعہ بن یحییٰ بصری نے کہا: ’’میں نے ابن عمر رضی اللہ عنہ سے طور پر جانے کے متعلق دریافت کیا؟ تو انھوں نے فرمایا: کوہ طور کوچھوڑ وہاں نہ جا، کیا تمہیں معلوم نہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’صرف تین مساجد (بیت اللہ، مسجد نبوی، بیت المقدس) ہی کے لیے (ثواب کی نیت سے) رخت سفر باندھا جائے۔‘‘[1] یہ حدیث جس سے ابن عمر رضی اللہ عنہ نے استدلال کیا، مرفوع حدیث ہے، اس کا صحابہ کی ایک جماعت سے مرفوع ہونا ثابت ہے،[2] ان میں سے ابوبصرہ غفاری ہیں اور ان سے بعض صحیح طرق سے ثابت ہے کہ انھوں نے بھی کوہ طور پر جانے کا انکار کیا ہے۔[3] جب اس مقام حق کی یہ حالت ہے اور وہ ’’مقامات رسول‘‘ جہاں آپ نے نماز پڑھی جیسا کہ بیان ہوا، وہاں صرف نماز اور اس طرح کی کوئی عبادت ہی کی جاتی ہے، تو پھر جزیرہ ’’فیلکا ‘‘ اور دیگر گمراہ کن مقاماتِ زیارت کے بارے میں کیا کہا جائے گا جبکہ وہ فساد شرکیات اور وثنیات کا گڑھ ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ان سے ممانعت زیادہ اہم ہے، اس کی بیخ کنی کرنا زیادہ ضروری ہے، لیکن اس دور میں حکمرانوں پر واجب ہے کہ وہ اس ذمہ داری کو نبھائیں اور وہ حکام خواہ کوئی بھی ہوں جو اللہ کی نازل کردہ شریعت
Flag Counter