Maktaba Wahhabi

537 - 756
اشتہر من الأحادیث علی ألسنۃ الناس‘‘ ’’ان احادیث سے پردہ ہٹانا جو لوگوں کی زبانوں پر مشہور ہیں۔‘‘ پھر اہل اختصاص کا اس حدیث سے سکوت اختیار کرنا ایسے شخص کو وہم میں ڈال سکتا ہے جسے اس کے متعلق علم نہیں کہ وہ حدیث اس زمرے میں سے ہے جو قابل استدلال ہے، یا اس قابل ہے کہ اس پر فضائل اعمال میں عمل کیا جائے، جیسا کہ وہ کہتے ہیں، اس حدیث کے لیے بھی اسی طرح ہوا ہے، میں نے بعض حنفیہ کو قبروں کے پاس قراء ت کرنے کے بارے میں اس حدیث سے استدلال کرتے ہوئے دیکھا ہے، یہ شیخ طحطاوی ہیں انھوں نے ’’مراقی الفلاح‘‘ (ص۱۱۷) پر اپنے حاشیے میں فرمایا! انھوں نے اسے دارقطنی کی طرف منسوب کیا، میں اسے وہم خیال کرتا ہوں، کیونکہ میں نے ان کے علاوہ کسی اور کو ان کی طرف منسوب کرتے ہوئے نہیں پایا، پھر اس علم سے وابستگان کے پاس معروف ہے کہ دار قطنی کی طرف مطلق انتساب سے ان کی کتاب ’’السنن‘‘ مراد ہوتی ہے اور میں نے اس حدیث کو اس میں نہیں دیکھا، واللّٰہ اعلم۔ نووی رحمہ اللہ نے ’’ریاض الصالحین‘‘ میں اثر رقم (۹۵۴)[1] کے تحت بیان کیا، شافعی رحمہ اللہ نے فرمایا: اس کے پاس [2] قرآن کا کچھ حصہ پڑھنا مستحب ہے اور اگر وہ پورا ختم کریں تو وہ اچھا ہے۔ ہمارے شیخ رحمہ اللہ نے ’’ریاض الصالحین‘‘ کے حاشیے (ص۳۴۷) میں بیان فرمایا: اس قول کا امام شافعی کے حوالے سے ثبوت محل نظر ہے، بلکہ ان سے جو ثابت ہے وہ اس کے منافی ہے۔ ہمارے شیخ رحمہ اللہ نے ’’ریاض الصالحین‘‘ (ص۱۷) کے مقدمے میں فرمایا: میں نے کہا: میں نہیں جانتا کہ شافعی رحمہ اللہ نے یہ کہاں بیان کیا ہے اور ان کے حوالے سے اس کا ثبوت میرے نزدیک بہت بڑا شک ہے، کس طرح نہ ہو جبکہ ان کا مذہب ہے کہ قراء ت کا ثواب مردے کو نہیں پہنچتا، جیسا کہ ابن کثیر نے اسے ان سے اللہ تعالیٰ کے فرمان: ﴿وَأَنْ لَّیْسَ لِلْاِنْسَانِ اِلَّا مَاسَعٰی﴾ (النجم:۳۹) کی تفسیر میں نقل کیا ہے، شیخ الاسلام ابن تیمیہ نے اس کے امام شافعی سے عدم ثبوت کی طرف ’’الاقتضاء‘‘ میں اپنے ان الفاظ سے اشارہ کیا ہے: ’’امام شافعی سے اس مسئلے میں کوئی کلام محفوظ نہیں، یہ اس لیے کہ وہ ان کے ہاں بدعت ہے، اور مالک نے فرمایا: ہم نے کسی کو نہیں جانا کہ اس نے اس پر عمل کیا ہو، معلوم ہوا کہ صحابہ اور تابعین یہ (عمل) نہیں کیا کرتے تھے۔‘‘
Flag Counter