Maktaba Wahhabi

536 - 756
ہم شعبی سے خاص طور پر ان الفاظ کے ساتھ ثبوت میں شک میں ہیں، میں نے سیوطی کو دیکھا کہ انھوں نے اسے ’’شرح الصدور‘‘ (ص۱۵) میں ان الفاظ سے نقل کیا ہے۔ ’’انصار میّت کے پاس سورۃ البقرۃ پڑھا کرتے تھے۔‘‘ اور انھوں نے کہا: ’’ابن ابی شیبہ اور مروزی نے اسے روایت کیا۔‘‘ انھوں نے اسے اس باب: ’’ما یقول الانسان فی مرض الموت، وما یقرأ عندہ‘‘ (انسان مرض الموت میں کیا کہے گا اور اس کے پاس کیا پڑھا جائے گا؟) میں نقل کیا ہے۔ پھر میں نے اسے ’’مصنف ابن ابی شیبۃ’‘(۴/۷۴) میں دیکھا اور انھوں نے اس کے لیے ان الفاظ سے عنوان قائم کیا: ’’باب ما یقال عند المریض إذا حضر‘‘ واضح ہوا کہ اس کی سند میں مجالد ہے، اور وہ ابن سعید ہے، حافظ نے ’’التقریب‘‘میں بیان کیا: ’’وہ قوی نہیں، وہ آخری عمر میں تغیر کا شکار ہوگیا تھا۔‘‘ اس سے ظاہر ہوا کہ وہ اثر قبر پر قراء ت کے بارے میں نہیں، بلکہ وہ قریب المرگ کے پاس ہے، پھر مزید یہ کہ وہ ضعیف الاسناد ہے۔ رہی وہ حدیث: ’’جو شخص قبرستان کے پاس سے گزرے اور گیارہ مرتبہ سورۂ اخلاص پڑھے، پھر اس کا اجر مردوں کو ہبہ کردے تو اسے مردوں کی تعداد کے برابر اجر دیا جائے گا۔‘‘ وہ حدیث باطل موضوع ہے، ابومحمد خلال نے اسے ’’القراءۃ علی القبور‘‘ (ق۲۲۰۱) میں اور دیلمی نے ’’ نسخۃ عبد اللہ بن احمد بن عامر عن ابیہ عن علی الرضا عن آباۂ‘‘ سے روایت کیا اور وہ نسخہ موضوع اور باطل ہے وہ اس عبد اللہ کا یا اس کے باپ کا وضع کردہ ہے، جیسا کہ ذہبی نے ’’المیزان‘‘ میں بیان کیا اور حافظ ابن حجر نے ’’اللسان‘‘ میں ان کی متابعت کی، پھر سیوطی نے ’’ذیل الاحادیث الموضوعۃ‘‘ میں، اور اس کی یہ حدیث ذکر کی، ابن عراق نے ’’تنزیہ الشریعۃ المرفوعۃ عن الأحادیث الشنیعۃ والموضوعۃ‘‘ میں اس کی متابعت کی۔ پھر سیوطی کے ذہن سے نکل گیا اور انھوں نے اس حدیث کو ’’شرح الصدور‘‘ (ص۱۳۰) میں ابومحمد سمرقندی کی ’’قل ہو اللہ احد‘‘ کے فضائل میں روایت سے نقل کیا اور اس پر سکوت کیا! ہاں اس سے پہلے وہ اس کے ضعف کی طرف اشارہ کرچکے ہیں، لیکن یہ کافی نہیں، جیسا کہ اس سے سکوت جائز نہیں، جیسا کہ شیخ اسماعیل عجلونی نے ’’کشف الخفاء‘‘ (۲/۳۸۲) میں کیا کہ انھوں نے اسے رافعی کی طرف اس کی تاریخ میں منسوب کیا اور اس پر خاموشی اختیار کی، حالانکہ انھوں نے اپنی کتاب مذکور اس عنوان کے تحت مقرر کی ’’الکشف عما
Flag Counter