بن العلاء بن لجلاج کے حوالے سے انھوں نے اپنے والد کے حوالے سے مجھے بتایا کہ انھوں نے وصیت کی کہ جب انھیں دفن کردیا جائے تو ان کے سرہانے سورۃ البقرۃ کا ابتدائی اور آخری حصہ پڑھا جائے اور انھوں نے کہا: میں نے ابن عمر کو یہ وصیت کرتے ہوئے سنا ہے، احمد نے اسے فرمایا: واپس جا اور اس آدمی سے کہہ کہ وہ پڑھے۔‘‘
اس کا کئی وجوہ سے جواب ہے:
۱: احمد کے حوالے سے اس قصے کا ثبوت محل نظر ہے، کیونکہ شیخ خلال حسن بن احمد الوراق جو ہیں میرے پاس اسماء الرجال کی اب جتنی کتب موجود ہیں میں نے ان میں ان کے سوانح حیات نہیں پائے، اس طرح ان کے شیخ علی بن موسیٰ الحداد ہیں، میں انہیں نہیں جانتا اور اگر یہ کہا جائے کہ اس سند میں ہے کہ وہ صدوق تھا، تو ظاہر ہے کہ یہ کہنے والا یہی الوراق ہے، اس کا حال تم جان چکے ہو۔
۲: اگر یہ ان سے ثابت بھی ہوجائے تو یہ اس سے زیادہ خاص ہے جسے ابوداؤد نے ان سے روایت کیا ہے، اور ان سے دو روایتوں کے درمیان جمع و تطبیق کی جائے گی، تو نتیجہ یہ نکلے گا کہ ان کا مذہب ہے کہ قبر کے پاس قراء ت مکروہ ہے مگر اسے دفن کرنے کے وقت مکروہ نہیں۔
۳: اس اثر کی سند ابن عمر سے صحیح نہیں، اگر اس کا احمد سے ثبوت فرض کرلیا جائے اور یہ کہ عبد الرحمن بن العلاء بن لجلاج کا شمار مجہولین میں ہوتا ہے، جیسا کہ ’’المیزان‘‘ میں اس کے ترجمے میں ذہبی کے قول سے معلوم ہوتا ہے: ’’اس سے صرف اس مبشر نے روایت کیا ہے۔‘‘ اور ان کے طریق سے ابن عساکر (۱۳/۳۹۹ /۲) نے اسے روایت کیا ہے، رہی ابن حبان کی اس کے متعلق توثیق تو اس کی کوئی اہمیت نہیں، جبکہ توثیق میں ان کا تساہل برتنا مشہور ہے، اسی لیے حافظ ’’التقریب‘‘ میں اس کی طرف مائل نہیں ہوئے جس وقت انھوں نے مترجم میں کہا: ’’مقبول‘‘ یعنی: متابعت کے وقت، ورنہ وہ لین الحدیث ہے، جیسا کہ انہوں نے مقدمہ میں اس کی صراحت کی ہے، ہم نے جو ذکر کیا اس کی اس سے بھی تائید ہوتی ہے کہ ترمذی … حسن قرار دینے میں اپنے تساہل کے باوجود … نے جب ان کی ایک دوسری روایت (۲/۱۲۸) نقل کی، ان کے ہاں اس سے صرف یہی ایک روایت ہے اس پر سکوت فرمایا اور اسے حسن قرار نہیں دیا۔
۴: اگر ابن عمر نے اس کی سند ثابت بھی ہوجائے تو وہ موقوف ہے، وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم تک مرفوع نہیں، پس اس میں اصلاً کوئی حجت نہیں اسی طرح کا ایک اثر جسے ابن القیم ہی نے (ص۱۴) ذکر کیا ہے:
’’خلال نے شعبی سے ذکر کیا، انھوں نے کہا: انصار کا معمول تھا کہ جب ان میں سے کوئی فوت ہوجاتا تو وہ اس کی قبر پر آتے جاتے رہتے اور قرآن پڑھتے تھے۔‘‘
|