قرآن پڑھنے کی کراہت بتاتی ہے، اور (ان دونوں میں) کوئی فرق نہیں۔[1]
اسی لیے جمہور سلف جیسے ابوحنیفہ اور مالک ودیگر ائمہ کا مذہب و مسلک یہی تھا کہ وہ قبروں کے پاس قرآن خوانی کو مکروہ جانتے تھے اور امام احمد کا بھی یہی قول ہے۔ ابوداؤد نے اپنے ’’مسائل‘‘ (ص۱۵۸)[2] میں بیان کیا:
’’میں نے احمد سے سنا، ان سے قبر کے پاس قراء ت کے متعلق پوچھا گیا؟ تو انھوں نے فرمایا: نہیں۔‘‘
شیخ الاسلام ابن تیمیہ نے ’’اقتضاء الصراط المستقیم مخالفۃ أصحاب الجحیم‘‘ (ص۱۸۲) میں بیان فرمایا:
’’اس مسئلے میں شافعی کے حوالے سے کوئی کلام محفوظ نہیں، یہ اس لیے کہ یہ ان کے ہاں بدعت تھی اور مالک نے فرمایا: میں کسی کو نہیں جانتا کہ وہ یہ کرتا ہو۔ معلوم ہوا کہ صحابہ اور تابعین یہ عمل نہیں کرتے تھے۔‘‘
اور انھوں نے ’’الإختیارات العلمیۃ‘‘ (ص۵۳) میں بیان کیا:
’’میّت پر اس کی وفات کے بعد قراء ت بدعت ہے، جبکہ قریب المرگ پر قراء ت اس سے مختلف ہے کیونکہ (اس پر) سورۂ یسٓ پڑھنا مستحب ہے۔‘‘
میں نے کہا: لیکن سورۂ یسٓ کی قراء ت کے متعلق حدیث ضعیف ہے، جیسا کہ (ص۱۱ پر) بیان ہوا، اور استحباب ایک شرعی حکم ہے، وہ ضعیف روایت سے ثابت نہیں ہوتا، جیسا کہ وہ ابن تیمیہ کے اپنے ہی کلام سے ان کی بعض تصنیفات سے معلوم ہے۔
اور رہا وہ جو ابن القیم کی کتاب ’’کتاب الروح‘‘ (ص۱۳) میں بیان ہوا ہے:
’’خلال نے بیان کیا: حسن بن احمد الوراق نے مجھے خبر دی: علی بن موسیٰ الحداد نے ہمیں بیان کیا اور وہ صدوق تھے۔ انھوں نے کہا: میں ایک جنازے میں احمد بن حنبل اور محمد بن قدامہ جوہری کے ساتھ تھا، جب میّت کو دفن کردیا گیا تو ایک نابینا شخص اس قبر کے پاس بیٹھ کر پڑھنے لگا تو احمد نے اسے فرمایا: اے فلاں! قبر کے پاس قراء ت بدعت ہے! جب ہم قبرستان سے باہر آئے، محمد بن قدامہ نے احمد بن حنبل سے کہا: ابوعبد اللہ! آپ مبشر حلبی کے بارے میں کیا فرماتے ہیں؟ انھوں نے کہا: وہ ثقہ ہے، انھوں نے کہا: آپ نے اس سے کچھ لکھا ہے؟ انھوں نے فرمایا: ہاں، انھوں نے کہا: مبشر نے عبد الرحمن
|