’’جنازے کے ساتھ تیز تیز چلنے کے استحباب پر علماء کا اتفاق ہے، مگر یہ کہ تیز چلنے سے میت کے پلٹ جانے یا اس کے متغیر ہو جانے کا اندیشہ ہو تو پھر آرام سے چلا جائے گا۔‘‘
میں نے کہا: امر کا ظاہر تو وجوب ہے،[1] ابن حزم نے (۵/ ۱۵۴- ۱۵۵) ایسے ہی کہا ہے، ہم نے اسے وجوب سے استحباب کی طرف بدل دینے والی کوئی دلیل نہیں پائی، لہٰذا ہم نے اسی کو اختیار کیا۔ ابن القیم نے ’’زادالمعاد‘‘ میں بیان کیا:
’’رہا لوگوں کا آج کل (جنازے کے ساتھ) آہستہ آہستہ چلنا تو یہ بدعت مکروہہ ہے، سنت کے مخالف، اور اس سے اہل کتاب یہود سے مشابہت لازم آتی ہے۔‘‘
۵۲: نعش پر ایک دوسرے کو دھکیلنا:
’’المحلی‘‘ لابن حزم (۵/ ۱۷۸)[2] ’’احکام الجنائز‘‘ (۳۱۴/۵۲)، ’’تلخیص الجنائز‘‘ (۹۹/ ۵۲)۔
۵۳: جنازے سے قریب ہونا چھوڑنا:
’’الباعث‘‘ (ص ۶۷)، ’’احکام الجنائز‘‘ (۳۱۴/۵۳)، ’’تلخیص الجنائز‘‘ (۹۹/ ۵۳)
۵۴: جنازے میں خاموشی اختیار نہ کرنا:
’’حاشیۃ ابن عابدین‘‘ (۱/ ۸۱۰) یہ نص بلند آواز سے ذکر کرنے کو بھی شامل ہے، جیسا کہ اس کے بعد والے فقرے میں ہے، اور لوگوں کا ایک دوسرے کے ساتھ بات چیت وغیرہ کرنا: ’’أحکام الجنائز‘‘ (۳۱۴/ ۵۴)، ’’تلخیص الجنائز‘‘ (۹۹/ ۵۴)۔
۵۵ ا: بلند آواز سے ذکر کرنا یا قرآن پڑھنا یا ’’البُردۃ‘‘ یا ’’دلائل الخیرات‘‘ وغیرہ پڑھنا: [3]
’’الابداع‘‘ (ص۱۱۰)، ’’اقتضاء الصراط المستقیم‘‘ (ص۵۷)، ’’الاعتصام‘‘ للامام الشاطبی (۱/ ۳۷۲)، ’’شرح الطریقۃ المحمدیۃ‘‘ (۱/ ۱۱۴)، اور دیکھیں مسئلہ ۴۸،[4]
|