اور ’’الأمر بالاتباع‘‘ (ص ۲۵۲) ’’الباعث‘‘ (۸۸) ’’أحکام الجنائز‘‘ (۳۱۴/ ۵۵) ’’تلخیص الجنائز‘‘ (۱۰۰/ ۵۵) ’’صلاۃ التراویح‘‘ (ص ۲۴)
جنازے کے آگے بلند آواز سے ذکر کرنے کے مسئلے کی تفصیل:
ہمارے شیخ رحمہما اللہ نے ’’أحکام الجنائز‘‘ (ص ۹۲) اور ’’تلخیص الجنائز‘‘ (ص۳۹-۴۰) میں بیان کیا:
جنازے کے آگے بلند آواز سے ذکر کرنا بھی اسی زمرے[1] میں آتا ہے، کیونکہ وہ بدعت ہے جیسا کہ قیس بن عباد نے بیان کیا:
’’نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب جنازوں کے پاس آواز بلند کرنے کو ناپسند کرتے تھے۔‘‘ بیہقی (۴/ ۷۴) نے اسے روایت کیا اور ابن المبارک نے ’’الزہد‘‘ (۸۳) اور ابو نعیم (۹/ ۵۸) نے ایسی سند سے روایت کیا جس کے راوی ثقہ ہیں۔‘‘
کیونکہ اس میں نصاریٰ سے مشابہت اختیار کرنا ہے، وہ اپنی اناجیل اور اپنے اذکار کو بلند آواز کے ساتھ، کھینچ کر، خوش الحانی کے ساتھ اور غم کے ساتھ پڑھتے ہیں۔
اور اس سے بھی زیادہ قبیح بات جنازے کے آگے آلات موسیقی پر ماتمی دھنیں بجانا ہے، جیسا کہ کفار کی تقلید میں بعض اسلامی ممالک میں کیا جاتا ہے۔واللّٰہ المستعان
نووی رحمہما اللہ نے ’’الأذکار‘‘ (ص ۲۰۳) میں بیان کیا:
’’جان لیجئے کہ درست اور پسندیدہ عمل تو وہ ہے، جس پر سلف رضی اللہ عنہم تھے، وہ ہے جنازے کے ساتھ چلتے ہوئے خاموشی اختیار کرنا، قراء ت وذکر وغیرہ بلند آواز سے نہ کیا جائے، اور اس میں جو حکمت ہے، وہ ظاہر ہے! وہ ہے جنازے کے متعلق ہی سارا غور وفکر ہونا، اور دل کو سکون پہنچانا، اور اس حالت میں یہی مطلوب ہے، یہی وہ حق ہے اور اس کی مخالفت کرنے والوں کی کثرت سے دھوکا نہ کھائیں، ابو علی فضیل بن عیاض ’’ان اس سے راضی ہو‘‘ نے اسی معنی میں فرمایا: ’’ہدایت کے طرق سے چمٹ جاؤ، اس کے پیروکاروں کی قلت تمہارے لیے مضر نہیں اور گمراہی کے طرق سے اجتناب کرو، اور ہلاک ہونے والوں کی کثرت تمہیں دھوکے میں نہ ڈال دے۔‘‘ ’’سنن البیہقی‘‘ میں روایت بیان کی گئی جو اس کا تقاضا کرتی ہے جو میں نے کہا (وہ قیس بن عباس کی طرف اشارہ کرتے ہیں) رہا وہ جو دمشق
|