Maktaba Wahhabi

486 - 756
غیر محدود رکعتوں کی مطلق نماز پر دلالت کرتی ہے، ہم نے جو ذکر کیا معاملہ اسی طرح یہاں فرض ہونا چاہیے اور منصف شخص پر یہ چیز واضح ہے۔ پھر شیخ رحمہ اللہ نے مصدر سابق (ص ۶۹۔۷۰) میں اس مسئلے کا خلاصہ پیش کرتے ہوئے کہا: ہم مختصر بات کریں گے، اور وہ اس گزشتہ بحث کے لیے خلاصے کی مانند ہے۔ سنت میں جو ثابت ہے اور جس پر صحابہ کا عمل رہا ہے، وہ اذان سے پہلے اور وقت سے پہلے تعداد اور کسی وقت کی تقیید کے بغیر مطلق نماز ہے، جو شخص ان کی راہ اختیار کرنا چاہے، وہ اختیار کرے، بے شک بہترین طریقہ محمدکا طریقہ ہے اور بدترین طریقہ دین میں نیا ایجاد کردہ طریقہ ہے اور ہر نیا طریقہ بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی ہے اور ہر گمراہی کا انجام جہنم ہے۔ پھر ہمارے شیخ رحمہ اللہ نے ’’خلاصۃ الرسالۃ‘‘[1] کے عنوان کے تحت (ص ۷۱) فرمایا: پانچویں بات: جو شخص اذان سے پہلے مسجد میں جائے تو وہ مطلق طور پر جتنی رکعتیں چاہے نماز پڑھے۔ چھٹی بات: اگر وہ شرعی اذان اور نئی اذان کے درمیان نماز کا قصد کرے … وہ نماز جسے وہ جمعہ سے پہلے کی سنتوں کا نام دیتے ہیں … تو اس کی سنت میں کوئی اصل ہے نہ صحابہ اور ائمہ میں سے کوئی اس کا قائل ہے۔ ہمارے شیخ نے ’’ریاض الصالحین‘‘ کے مقدمے (ص ۱۸) میں ’’ریاض الصالحین‘‘ ’’باب سنۃ الجمعۃ‘‘ رقم (۲۰۳) میں امام نووی رحمہ اللہ کے قول کی تشریح کرتے ہوئے فرمایا: میں نے کہا: گویا کہ ان کی مراد بعد والی سنتیں ہیں، کیونکہ وہ احادیث جو انہوں نے باب میں ذکر کی ہیں، وہ بعد والی سنتوں کے بارے میں ہیں اور رہیں جمعہ سے پہلے کی سنتیں، تو اس بارے میں بالکل کوئی حدیث صحیح نہیں، جبکہ متعصب حنفیوں میں سے بعض ہوس پرستوں نے اس کے برعکس کوشش کرکے دیکھی ہے، اور مصنف رحمہ اللہ نے باب میں ان میں سے کسی بھی روایت کے ذکر کرنے سے اعراض کرکے اس کی طرف اشارہ کیا ہے، اس کے باوجود ان میں سے بعض ’’سنن ابن ماجہ‘‘ میں ہیں لیکن وہ انتہائی ضعیف ہیں، جیسا کہ میں نے انھیں اپنے رسالے ’’الأجوبۃ النافعۃ‘‘ میں اسے بیان کیا ہے، تو کیا مؤلف کے اس فعل سے یہ مقلد نصیحت حاصل کریں گے؟ ہمارے شیخ رحمہ اللہ نے ’’صحیح الترغیب‘‘ (۱/۳۸۱) میں حدیث رقم (۵۸۷) (۴)[2] کی شرح اور
Flag Counter