طعن کرتا، اور یہ اس کے برعکس ہے جسے وہ آج کرتے ہیں، وہ بیٹھے رہتے ہیں حتیٰ کہ جب مؤذن اذان دیتا ہے تو وہ کھڑے ہوکر رکوع کرتے ہیں! [1] اگر کوئی کہے: اس وقت میں نماز پڑھنا جائز ہے، امام بخاری نے عبد اللہ بن مغفل رضی اللہ عنہ سے روایت کیا، انہوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ہر دو اذان کے درمیان نماز ہے۔‘‘ آپ نے تین مرتبہ فرمایا: اور تیسری مرتبہ فرمایا: ’’جو چاہے۔‘‘ اس کا جواب یہ ہے کہ سلف رضوان اللہ علیہم حال سے زیادہ واقف اور بات کی زیادہ معرفت رکھتے تھے، انہوں نے جو کیا اس میں ان کی اتباع کے علاوہ ہمارے لیے کوئی چارہ نہیں۔‘‘
میں (البانی)نے کہا: یہ جواب کافی و شافی نہیں، کیونکہ اس نے تسلیم کا وہم ڈال دیا ہے کہ حدیث اذان عثمان اور اذان نبوی کے درمیان نماز کے قصد کی مشروعیت پر دلالت کرتی ہے، حالانکہ اس طرح نہیں ہے، تو پھر اس کی توضیح ضروری ہے، میں کہتا ہوں:
وہ حدیث اس پر بالکل دلالت نہیں کرتی، کیونکہ اس حدیث میں آپ کے فرمان الاذانین: (دو اذانوں) سے اذان و اقامت مراد ہے، حافظ نے فرمایا:
’’شارحین کا اس طرح کہنا باب تغلیب میں سے ہے، جیسا کہ وہ سورج اور چاند کے لیے کہتے ہیں ’’القمرین‘‘ اور احتمال ہے کہ اذان کا اقامت پر اطلاق کیا ہو، کیونکہ وہ (اقامت) نماز کے حضور کا اعلان ہے، جیسا کہ اذان دخول وقت کا اعلان ہے۔‘‘
میں نے کہا: خواہ یہ ہو یا وہ، یہاں اذانِ ثانی سے مراد اقامت ہی ہے، جب معاملہ اس طرح ہو تو پھر یہ قائل مذکور کے موقف کی دلیل نہیں۔
پھر اگر ہم فرض کریں کہ حدیث اپنے ظاہر پر ہے کہ وہ اذان عثمان کو شامل ہے، اور اس کے ساتھ یہ کہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں بالاتفاق نہ تھی، تو یہ کسی عدد معین کے بغیر مطلق نماز کے استحباب پر دلیل ہے، اس پر تو بحث ہی نہیں، بحث تو اس کے سنت مؤکدہ ہونے اور اس کے چار رکعت ہونے سے متعلق ہے، اس کی صورت پر کوئی دلیل نہیں بنتی، یہ حدیث نہ اس کے علاوہ کوئی اور حدیث۔
اور میں نے جو ذکر کیا کہ علماء میں سے کسی ایک نے بھی حدیث مذکور سے دونوں اذانوں کے درمیان محدود رکعتوں کے ساتھ معین نماز کی سنت پر استدلال نہیں کیا، خاص طور پر اذان مغرب اور اس کی اقامت، اس سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے، بلکہ انہوں نے جو کہا اس کی غایت یہ ہے کہ وہ صرف مندوب ہونے پر دلالت کرتی ہے اور
|