بیان کرتے ہیں: اسی کی مثل، اگر وائل کے حافظے میں رکوع سے اٹھنے کے بعد ہاتھ باندھنا ہوتا تو وہ اسے بھی ذکر کرتے جیسا کہ وہ ان کے اس سے پہلے تین مرتبہ رفع الیدین کے ذکر سے ظاہر ہے، لیکن جب وہ جملہ اپنے محل سے حدیث سے الگ کر دیا گیا تو اس نے رکوع سے اٹھنے کے بعد ہاتھ باندھنے کا وہم پیدا کر دیا، ہمارے بعض معاصر فاضل علماء نے اس کے متعلق کہا: جبکہ میری معلومات کے مطابق سلف صالحین میں سے کسی کا یہ موقف نہیں۔ [1]
اور اس سے جو تاکید پیدا کرتا ہے وہ ابن ادریس کی عاصم سے اس کے متعلق ان الفاظ سے مختصر روایت ہے:
’’میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا جس وقت آپ نے اللّٰہ اکبر کہا آپ نے دائیں ہاتھ کے ساتھ بائیں ہاتھ کو پکڑا۔‘‘
اور ہمارے شیخ رحمہ اللہ نے ’’المشکاۃ‘‘ (۱/۲۵۲) میں حدیث رقم (۸۰۴)[2] کے تحت بیان کیا:
’’…اپنی کمر دراز کر، جب تم اٹھو تو اپنی کمر سیدھی کرو، اور اپنا سر اٹھاؤ حتی کہ ہڈیاں اپنی جگہوں پر آجائیں…‘‘
وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز کے طریقے کے بارے میں ’’المشکاۃ‘‘ میں ابو حمید سے مروی حدیث رقم (۹۲) کے معنی میں ہے: ’’حتی کہ ریڑھ کی ہڈی کاہر مہرہ اپنی جگہ آجائے، پس اس حدیث میں اس قیام (دوسرے) میں دائیں ہاتھ کو بائیں ہاتھ پر رکھنے کی مشروعیت پر کوئی دلالت نہیں جیسا کہ ہمیں اپنے بعض اہل حدیث بھائیوں کے حوالے سے خبر پہنچی ہے۔
ہمارے شیخ البانی رحمہ اللہ نے حدیث [3] رقم (۴۴۴۲) کے تحت، جو کہ ’’ضعیف الجامع‘‘ سے ہے، بیان کیا، اور اس کی نص یہ ہے: ’’جب آپ نماز میں کھڑے ہوتے تو دائیں ہاتھ سے بائیں ہاتھ کو پکڑتے تھے۔‘‘
ہند میں ہمارے بعض محدث بھائیوں نے اس سے رکوع کے بعد قیام میں ہاتھ باندھنے کی مشروعیت پر استدلال کیا ہے انہوں نے ایک رسالہ تصنیف کیا ہے جس سے مجھے آگاہی ہوئی، میں ۱۳۸۱ھ سے مدینہ منورہ میں ہوں، میں نے مذکورہ رسالہ [4] اس (رسالے) کی تردید میں تالیف کیا۔
|