کہا۔ (اور ہمام نے بیان کیا) اپنے کانوں کے برابر، پھر اپنا کپڑا لپیٹ لیا۔
پھر اپنا دایاں ہاتھ بائیں پر رکھا۔
جب آپ نے رکوع کرنے کا ارادہ کیا، آپ نے کپڑے سے ہاتھ نکالے، پھر انہیں اٹھایا، پھر اللّٰہ اکبر کہا، رکوع کیا، جب آپ نے کہا: ’’سمع اللہ لمن حمدہ‘‘ آپ نے ہاتھ اٹھائے۔
جب آپ نے سجدہ کیا۔ آپ نے دونوں ہتھیلیوں/ ہاتھوں کے درمیان سجدہ کیا۔
مسلم (۲/۱۳)، ابو عوانہ (۲/۱۰۶۔۱۰۷)، احمد (۴/۳۱۷۔ ۳۱۸) اور بیہقی (۲/۲۸،۷۱) نے اسے روایت کیا۔
۲۔ عاصم بن کلیب نے اپنے والد سے، انہوں نے وائل بن حجر سے روایت کیا، انہوں نے کہا:
’’میں نے کہا: میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز دیکھوں گا کہ آپ کس طرح نماز پڑھتے ہیں؟ انہوں نے بیان کیا: پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوتے توقبلہ رخ ہوئے، اللّٰہ اکبر کہا، ہاتھ اٹھائے حتی کہ وہ کانوں کے برابر ہو گئے۔ پھر بائیں (ہاتھ) کو دائیں کے ساتھ پکڑا۔
جب رکوع کرنے کا ارادہ فرمایا، تو اسی مثل ان دونوں (ہاتھوں) کو اٹھایا۔
پھر انہوں نے دونوں ہاتھ گھٹنوں پر رکھے۔
جب رکوع سے سر اٹھایا تو ان دونوں کو اسی کی مثل اٹھایا۔
جب سجدہ کیا تو سر کو اسی جگہ ہاتھوں کے درمیان رکھا۔ پھر آپ بیٹھے تو آپ نے بایاں پاؤں بچھایا اور انگشت شہادت سے اشارہ کیا…‘‘
ابو داؤد، نسائی اور احمد وغیرہم نے صحیح سند کے ساتھ اسے روایت کیا، اور وہ ’’صحیح ابی داود‘‘ (۷۱۶۔۷۱۷) میں منقول ہے… اور ابن ماجہ میں ان سے اس طرح مروی ہے:
’’میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو نماز پڑھتے ہوئے دیکھا تو آپ نے اپنے دائیں ہاتھ سے بائیں ہاتھ کو پکڑا۔‘‘
میں کہتا ہوں: جب دیکھنے والے نے صرف اسی ایک جملے کو دیکھا، اسے معلوم نہ ہوا، یا کم از کم اس کے ذہن میں نہ آیا کہ وہ حدیث کا اختصار ہے، تو اس نے اس سے سمجھ لیا کہ اس سے ہر قیام میں ہاتھ باندھنے کی مشروعیت ثابت ہوتی ہے خواہ وہ رکوع سے پہلے ہو یا اس کے بعد، اور یہ خطا ہے جس پر حدیث کا سیاق دلالت کرتا ہے، وہ اس میں صریح ہے کہ ہاتھ باندھنا صرف قیام اوّل میں ہے، اور وہ سیاق عاصم میں زیادہ صریح ہے، کیونکہ انہوں نے تکبیر تحریمہ میں رفع الیدین کا ذکر کیا ہے، پھر رکوع جاتے وقت اور رکوع سے سر اٹھاتے وقت، وہ ان دونوں میں
|