Maktaba Wahhabi

412 - 756
نے اس کے کرنے اور اس کے نہ کرنے کے درمیان اختیار دیا ہے! کیا وہ شیخ الفاضل گمان کر سکتا ہے کہ امام احمد اسی طرح رکوع سے پہلے بھی ہاتھ باندھنے اور نہ باندھنے کے درمیان اختیار دے سکتے ہیں؟! ثابت ہوا کہ وہ وضع مذکور (رکوع کے بعد ہاتھ باندھنا) سنت نہیں، اور یہی مراد ہے۔ ہمارے شیخ رحمہ اللہ نے ’’الصحیحۃ‘‘ سے حدیث رقم (۲۲۴۷) کے لیے عنوان قائم کیا ہے: ’’رکوع سے پہلے والے قیام میں ہاتھ باندھنا مشروع ہے اس میں نہیں جو کہ اس کے بعد ہے۔‘‘ اور انہوں نے یہ حدیث ذکر کی۔ ’’جب آپ نماز میں کھڑے ہوتے تو دائیں ہاتھ سے بائیں کو پکڑتے تھے۔‘‘ ہمارے شیخ نے اسے روایت کرنے والوں میں سے بعض کا ذکر کیا، پھر انہوں نے بیان کیا کہ جس نے رکوع کے بعد سینے پر ہاتھ باندھنے کی مشروعیت کے متعلق کہا ہے اس نے ان مختصر روایات پر اعتماد کیا ہے، آپ رحمہ اللہ نے ارادہ کیا کہ وہ اہل علم اور طالب علموں کے لیے واضح کر دیں، اس پر تحقیق کرنے والے پر لازم ہے کہ بحث و اطلاع میں بڑی مستقل مزاجی اور محنت سے تحقیق کرے حتی کہ وہ کسی غلطی میں مبتلا نہ ہو جائے۔ ہم یہاں ’’الصحیحۃ‘‘ (۵/۳۰۶۔۳۰۸) میں ان کے کلام کو، معمولی سی تبدیلی کے ساتھ، بیان کرتے ہیں، آپ … رحمہ اللہ … نے اس مسئلے کی وضاحت کرتے ہوئے فرمایا: امام احمد نے (۴/۳۱۶)، ابن ابی شیبہ نے ’’المصنف‘‘ (۱/ ۳۹۰) میں اسے روایت کیا: حدثنا وکیع، حدثنا موسی بن عمیر العنبری، سے مختصر طور پر اس طرح بیان کیا: ’’میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو نماز میں دائیں ہاتھ کو بائیں ہاتھ پر رکھے ہوئے دیکھا۔‘‘انہوں نے قیام کا ذکر نہیں کیا۔ بغوی نے ’’شرح السنۃ‘‘ (۳/۳۰) میں دوسرے طریق سے روایت کیا۔ اسی طرح احمد (۴/۳۱۶۔۳۱۹) نے ایک دوسرے طریق سے وائل بن حجر سے قیام کے ذکر کے بغیر اسے روایت کیا۔ محقق کو اس حدیث کے طرق میں کوئی شک نہیں کہ وہ بھی وکیع کی اس روایت کی طرح مختصر ہے جووائل سے مروی ہے جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز اور اس قیام کو واضح کرتی ہے جس میں آپ نے ہاتھ باندھے، اور وہ رکوع سے پہلے ہے، یہ دو طریق سے آیا ہے: ۱۔ عبدالجبار بن وائل نے علقمہ بن وائل اور ان کے آزاد کردہ غلام سے روایت کیا کہ ان دونوں نے اس کے والد وائل بن حجر کے حوالے سے اسے بیان کیا: انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا، جس وقت آپ نے نماز شروع کی اپنے دونوں ہاتھ اٹھائے اور اللّٰہ اکبر
Flag Counter