ہمارے شیخ… قدس اللّٰہ روحہ و نور ضریحہ… نے ’’صحیح موارد الظمآن‘‘ (۱/۲۳۹) میں حدیث رقم (۴۰۱۔۴۸۴)[1] کے تحت رفاعہ الزرقی کی روایت پر تبصرہ کرتے ہوئے فرمایا، اور اس میں ہے: ’’اپنی کمر دراز کر، جب تو اپنا سر اٹھائے، تو اپنی کمر سیدھی کر حتی کہ ہڈیاں اپنی جگہ پر آجائیں۔‘‘
یعنی: ریڑھ اور کمر کی ہڈیاں، یعنی: ریڑھ کی ہڈیوں کے مہرے اپنی اپنی جگہ پر آجائیں، جیسا کہ ابو حمید کی اس روایت میں بیان ہے جو انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز کے متعلق بیان کرتے ہوئے فرمائی اور وہ ابھی بیان ہوگی، اور اس سے اس قیام میں کمال اعتدال مراد ہے، اور اس میں کمی اور بگاڑ سے ممانعت کے بارے میں صحیح احادیث وارد ہیں جیسا کہ بیان ہو گا۔
رہا اس سے اس (رکوع کے بعد والے) قیام میں سینے پر ہاتھ باندھنے کا استدلال تو وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز میں آپ کے معروف طریقے سے بہت بعید ہے، اور اس حدیث اور اس کے علاوہ دیگر احادیث کے سیاق سے دور ہے، جیسا کہ میں نے اس کی کئی ایک مواقع پر تشریح کی ہے، جو کوئی مزید تفصیل چاہتا ہو تو وہ ان کی طرف رجوع کرے، ان میں سے ’’صفۃ صلاۃ النبی صلی اللہ علیہ وسلم ‘‘ بھی ہے۔
شیخ رحمہ اللہ نے ’’صحیح موارد الظمآن‘‘ (۱/۲۴۰) میں حدیث رقم (۴۰۲۔۴۸۵)[2] کے تحت وائل بن حجر کی روایت پر تبصرہ کرتے ہوئے فرمایا، اور اس میں ہے:
’’پھر جب انہوں نے ارادہ کیا کہ رکوع کریں: اسی کی مثل رفع الیدین کیا، پھر رکوع کیا تو اپنے ہاتھ گھٹنوں پر رکھے، پھر (رکوع سے) اپنا سر اٹھایا تو اسی کی مثل ہاتھ اٹھائے۔‘‘
وائل رضی اللہ عنہ کے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے تکبیر تحریمہ میں ہاتھ اٹھانے کا طریقہ بیان کرنے کے سیاق کے حسن کے متعلق قارئین کو غور کرنا چاہیے، پھر رکوع میں جاتے اور رکوع سے سر اٹھاتے وقت رفع الیدین کی کس طرح اختصار کے ساتھ تعبیر کرتے ہوئے فرمایا: ’’پس آپ نے اس کے مثل دونوں ہاتھ اٹھائے۔‘‘ اگر وہ، جسے بعض فضلاء رکوع کے بعد قیام میں ہاتھ باندھنے کی طرف منسوب کرتے ہیں، صحیح ہوتا تو وہ مثال کے طور پر اس طرح فرماتے: ’’اور دایاں ہاتھ بائیں ہاتھ پر اسی کی مثل رکھا۔‘‘ یا اس کے مانند فرماتے، کیونکہ وہ وقت بیان ہے جیسا کہ وہ ظاہر ہے، بطور منصف غور کریں۔ اور ’’صفۃ الصلوۃ‘‘ دیکھیں۔
اور شیخ رحمہ اللہ نے ’’صحیح موارد الظمآن‘‘ (۱/۲۴۱) حدیث رقم (۴۰۵۔۴۸۹)[3] کے تحت اسی
|