Maktaba Wahhabi

370 - 756
… فرمایا: ’’انہوں نے کہا: اور یہ ان کے ہاں خوب اچھی طرح کترنا نہ ہوگا۔‘‘ ’’اس کا یہ جواب دیا جائے گا کہ اس کا احتمال ہے، اور دعویٰ کہ ان کے ہاں خوب اچھی طرح کترنا نہ ہو ممنوع ہے، اور اگر وہ صحیح ہے جیسا کہ ذکر کیا گیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ان فرامین کے خلاف نہیں۔‘‘ میں نے کہا: شوکانی کا جواب طحاوی کے جواب کی نسبت درست ہونے سے بہت دور ہے، کیونکہ احتمال مذکور باطل ہے، اس کا اس شخص سے تصور بھی نہیں کیا جا سکتا جسے مسواک پر مونچھیں کترنا یاد ہو۔ رہا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرامین کو ترجیح دینا، تو وہ صحیح ہے اگر وہ آپ کے فعل سے ایسے متضاد ہوں کہ جمع وتطبیق ممکن نہ ہو، جبکہ معاملہ اس طرح نہیں جیسا کہ اس کا بیان گزر چکا ہے۔ جان لیجیے کہ اس حدیث کی تخریج کا باعث کہ میں نے دیکھا کہ شوکانی نے اسے ابن القیم سے نقل کرتے ہوئے ابن عباس کی روایت سے ذکر کیا، مجھے اس بارے میں شک گزرا، تو میں نے ان (ابن القیم رحمہ اللہ ) کی کتاب ’’زاد المعاد‘‘ کی طرف رجوع کیا، تو میں نے اس میں اس لفظ کے ساتھ روایت دیکھی: ’’وہ اپنی مونچھیں کترتے تھے۔‘‘ مجھے معلوم ہوا کہ نقل کرنے والے یا طباعت کرنے والے نے اس لفظ یجز (کترنے) کو شوکانی پر لفظ یحفی (خوب اچھی طرح کترتے تھے) سے بدل دیا ہے! اور اس کی تائید اس سے ہوتی ہے کہ ابن القیم نے ابن عباس کی اس روایت کے فوراً بعد بیان کیا: ’’طحاوی نے فرمایا: اور یہ (یعنی الجز: کترنا) اس میں الاحفاء خوب اچھی طرح کترنا زیادہ راجح ہے، اور اس میں دو طرح کا احتمال ہے۔‘‘ میں نے کہا: اگر حدیث کا لفظ ’’یحفی‘‘ (خوب اچھی طرح کترتے تھے) ہوتا، تو پھر انہوں نے جوذکر کیا اس کی تفسیر درست نہیں، جیسا کہ وہ ظاہر ہے۔ پھر جان لیجیے کہ ابن عباس کی روایت سماک بن حرب عن عکرمہ عن ابن عباس کی سند سے کئی الفاظ کے ساتھ مرفوعا وارد ہے، یہ ان میں سے ایک ہے۔ طحاوی نے ’’شرح المعانی‘‘ (۲/۳۳۳) میں اسے نقل کیا ہے۔ دوسرے الفاظ یہ ہیں: کان یقص شاربہ: وہ ’’اپنی مونچھیں کترتے تھے۔‘‘ امام احمد (۱/۳۰۱) نے الدینوری نے ’’المجالسۃ‘‘[1] (۲۶/۲۵۔ ۲۶) میں نقل کیا، اور ان سے ابن عساکر نے ’’التاریخ‘‘ (۲/۱۶۶/۲) میں اور طبرانی نے ’’المعجم الکبیر‘‘ (۱۱۷۲۵) میں نقل کیا اور انہوں نے یہ
Flag Counter