اضافہ نقل کیا:
((وَکَانَ اَبُوْکُمْ اِبْرَاھِیْمُ مِنْ قَبْلِہِ یَقُصُّ شَارِبَہُ۔))
’’تمہارے باپ ابراہیم اس سے پہلے اپنی مونچھیں کترا کرتے تھے۔‘‘
تیسرے یہ الفاظ ہیں:
(( کَانَ یَقُصُّ اَوْ یَاْخُذُ مِنْ شَارِبِہٖ وَکَانَ خَلِیْلُ الرَّحْمٰنِ یَفْعَلُہٗ۔))
’’وہ اپنی بعض مونچھیں کترتے تھے، اور ابراہیم خلیل الرحمن ایسے کیا کرتے تھے۔‘‘
امام ترمذی (۲۷۶۱) نے اسے اسرائیل عن سماک کے طریق سے نقل کیا۔
اس سے پہلے جو دو قسم الفاظ انہوں نے نقل کیے ہیں وہ دونوں ہم نے حسن بن صالح عن سماک کے طریق سے نقل کیے۔
حسن بن صالح اور اسرائیل دونوں ثقہ ہیں، پس ظاہر ہے کہ یہ اس کے الفاظ میں اختلاف ہے! وہ سماک بن حرب سے ہے! جب وہ عکرمہ سے روایت کرے تو وہ متکلم فیہ ہے، حافظ نے ’’التقریب‘‘ میں بیان کیا:
’’صدوق ہے، اور اس کی عکرمہ سے روایت مضطرب ہے، آخری عمر میں تغیر کا شکار ہوگیا تھا بعض اوقات اس سے روایت لی جاتی تھی۔‘‘
میں کہتا ہوں: یہ روایت کی تحقیق ہے، ورنہ میرے نزدیک درایت کے لحاظ سے ان تینوں قسم کے الفاظ میں کوئی فرق نہیں کیونکہ لفظ (یجز)، (یقص) کے معنی میں ہے، اور ان دونوں کے معنی میں ایک اور لفظ ہے: ((یأخذ من شاربہ)) کیونکہ ’’من‘‘ تبعیضیہ (بعض کے معنی میں) ہے اور وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان کی طرح ہے:
((مَنْ لَمْ یَأْخُذْ مِنْ شَارِبِہِ فَلَیْسَ مِنَّا)) ’’جو اپنی مونچھوں میں سے نہ لے (کترے) تو وہ ہم میں سے نہیں۔‘‘
ترمذی اور دیگر نے اسے روایت کیا اور ان سب نے اسے صحیح قرا ر دیا۔
اور اس لینے (کترنے) کا طریقہ سنت عملی میں بیان ہوا ہے تو جن قولی احادیث کو سمجھنے میں اختلاف ہو جائے تو ان کی تفسیر جاننے کے لیے ان عملی نصوص کی طرف رجوع کیا جائے گا۔ یہ طے شدہ قاعدہ ہے: فعل قول کی وضاحت کرتا ہے حتی کہ وہ اللہ تعالیٰ کے کلام سے ہو۔
سنت سے جتنا میں واقف ہوا ہوں، اسے ملاحظہ فرمائیں:
اوّل:… مغیرہ بن شعبہ نے فرمایا:
|