کھڑے ہو جاتے ہیں۔ وہ اپنے خیال کے مطابق۔ اللہ کا ذکر کرتے ہیں۔ دائیں بائیں اور آگے پیچھے جھکتے/ جھومتے ہیں، اور خوبصورت آواز کے ساتھ خوبصورت اشعار پڑھتے ہیں، حتی کہ ان کے پیٹ میں جو کچھ ہوتا ہے وہ پگھل (گل) جاتا ہے! اس کے باوجود وہ سمجھتے ہیں کہ وہ اچھا کر رہے ہیں! اور کسی نے ٹھیک ہی کہا ہے:
مَتٰی عُلِّمَ النَّاسُ فِی دِیْنِنَا
بِأَنَّ الْغِنَا سُنَّۃٌ تُتَّبَعْ
وَاَنْ یَّأْکُلَ الْمَرْئُ أَکْلَ الْحِمَا
رِوَ یَرْقُصَ فِی الْجَمْعِ حَتّٰی یَقَعْ
وَقَالُوا سَکِرْنَا بِحُبِّ الْاِ لٰ
ہِ وَمَا اَسْکَرَ الْقَوْمَ اِلاَّ الْقِصَعْ
کَذَاکَ الْبَہَائِمُ اِنْ اُشْبِعَتْ
یُرَقِّصُہَا رِیُّہَا وَالشِّبَعْ
فَیَالَلْعُقُولُ وَیَا لَلنُّہٰی
اَ لَامِنْ مُنْکِرٍ مِنْکُمْ لِلْبِدَعْ
تُہَانُ مَسَاجِدُنَا بِالسَّمَا
عِ وَتُکْرَمُ عَنْ مِثْلِ ذَاکَ الْبِیَعْ
’’ہمارے دین کے متعلق لوگوں کو کب بتایا جائے گا۔ کہ گانا ایک سنت ہے جس کی اتباع کی جاتی ہے۔ یہ کہ آدمی گدھے کی طرح کھائے۔ اور مجمع میں رقص کرے حتی کہ گر جائے۔
اور انہوں نے کہا: الٰہ کی محبت سے ہم مدہوش ہو گئے۔ جبکہ لوگوں کوبڑے جام نے مدہوش کیا۔ اسی طرح اگر چوپائے شکم سیر کردیے جائیں، توان کی سیرابی اور ان کی شکم سیری انہیں رقص کراتی ہے۔
عقل مندو! اور دانش ورو! کیا تم میں بدعات کا انکار کرنے والا کوئی نہیں۔ سماع کے ذریعے ہماری مساجد کی توہین کی جاتی ہے۔ اسی طرح کی حرکتوں سے کلیساؤں کی عزت کی جاتی ہے۔‘‘
ہمارے شیخ نے ’’الضعیفۃ‘‘ (۲/۳۴) میں حدیث رقم (۵۵۸)
(( لَیْسَ بِکَرِیْمٍ مَنْ لَّمْ یَتَوَاجَدْ عَنْ ذِکْرِ الْحَبِیْبِ۔))
’’وہ شخص معزز نہیں جو حبیب کے ذکر کے وقت وجد میں نہیں آتا۔‘‘ کے تحت بیان کیا:
یہ روایت موضوع ہے۔ محمد بن طاہر مقدسی نے اسے ’’صفوۃ التصوف‘‘ میں ذکر کیا، اور اس کے طریق سے
|