Maktaba Wahhabi

296 - 756
اگر فرض کریں وہ صحیح بھی ہو تو اس کا معنی ہو گا: وہ اللہ تعالیٰ کے ذکر سے خوشی اور راحت محسوس کرتے ہیں: جیسا کہ ’’النھایۃ‘‘ سے مادہ ’’ھزز‘‘ سے اخذ کیا گیا، پس تب وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان جیسا ہو گا: ’’أَرِحْنَا بِھَا یَا بِلَالُ!‘‘ [1] ’’بلال! اس (نماز) کے ذریعے ہمیں راحت پہنچاؤ۔‘‘ اور یہ اس معنی کے قریب ہے جو امام نووی نے بیان کیا ہے، واللہ اعلم! اس مناسبت سے امت کی خیر خواہی کے لیے نصیحت کرنا ضروری ہے، کہ بعض جعلی صوفیاء جو علی رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہوئے، ذکر کرتے ہیں کہ انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب کا وصف بیان کرتے ہوئے فرمایا: ’’جب وہ اللہ کا ذکر کیا کرتے تھے تو وہ اس طرح جھومتے تھے جس طرح آندھی والے دن درخت جھومتے ہیں۔‘‘ جان لیں کہ یہ ان (علی رضی اللہ عنہ ) سے ثابت نہیں، ابو نعیم نے اسے ’’الحلیۃ‘‘ (۱/۷۶) میں محمد بن یزید ابو ہشام: حدثنا المحاربی، عن مالک بن مغول، عن رجل من (جعفی)، عن السدی، عن ابی اراکۃ، عن علی کی سند سے روایت کیا ہے۔ میں نے کہا: یہ اسناد ضعیف اور تاریک ہے۔ (۱) ابوأراکۃ، میں نے اسے نہیں جانا، اور نہ ہی میں نے کسی کو پایا ہے کہ اس نے اس کا ذکر کیا ہو، صرف دولابی نے ’’الکنی‘‘ میں ذکر کیا أبو أراک، اور وہ اس طبقہ سے ہے، اور اس کے لیے عبداللہ بن عمرو سے ایک اثر بیان کیا، اور اس نے حسب عادت اس کے متعلق جرح ذکر کی نہ تعدیل۔ (۲) جعفی آدمی کا نام ذکر نہیں کیا لہٰذا وہ مجہول ہے۔ (۳) محمد بن یزید، بخاری نے فرمایا: ’’میں نے ان کو اس کے ضعف پر متفق پایا۔‘‘ ہمارے شیخ نے ’’الضعیفۃ‘‘ (۱/۲۳۴۔۲۳۵) میں موضوع حدیث رقم (۱۱۵) کے تحت بیان کیا: ’’اپنے کھانے کو اللہ کے ذکر اورنماز کے ذریعے گال لیا کرو (ہضم کرو)۔ اس میں سستی نہ کرو، ورنہ تمہارے دل سخت ہو جائیں گے۔‘‘[2] جان لیجیے کہ اس مکذوب حدیث کے متعلق سب سے زیادہ بامراد وہ لوگ ہیں جو کھانے والے رقص کرنے والے ہیں، وہ مختلف انواع کے کھانوں اور مشروبات سے اپنے پیٹ بھرتے ہیں، پھر وہ ایک دوسرے کا ہاتھ پکڑ کر
Flag Counter