Maktaba Wahhabi

269 - 756
’’امام ترمذی نے اس سے دلیل ہے۔‘‘ یہ ان پر جھوٹ ہے، یہ کس طرح ہوسکتا ہے جبکہ وہ اس کے بارے میں فرماتے ہیں: ’’وہ حدیث میں ضعیف قرار دیا گیا ہے۔‘‘ جس طرح ’’التہذیب‘‘ میں ہے؟! اور اس میں ہے کہ ابن عبدالبر نے کہا: ’’ان کا اس کے ضعف پر اجماع ہے، اور ان میں سے بعض نے اسے جھوٹا قرار دیا ہے، اور ان کا اس سے روایت نہ لینے پر اجماع ہے۔‘‘ اس کا ’’السنن الاربعۃ‘‘ میں سے ہر ایک پر ’’ الصحیح‘‘ کا اطلاق کرنا کم تر ہے بنسبت ’’سنن البیہقی‘‘ پر اس اسم کے اطلاق کرنے میں پس حدیث رقم (۴۹۰۳) کے تحت اس پر تنبیہ کی طرف رجوع کریں، اور اللہ کا شکر ادا کریں کہ اس نے تمہیں سنی بنایا تم مخالفین پر کذب اور ان کے خلاف دجل و فریب کو جائز نہیں سمجھتے۔ (۴)… اس کا کہنا: ’’اور اس (آیت) کا ان کے بارے میں نزول کو ’’الجمع بین الصحاح الستۃ‘‘ کے مؤلف نے نقل کیا ہے …!‘‘ میں نے کہا: اس سے ابن الاثیر کی کتاب، جس کا نام ’’جامع الاصول‘‘ ہے، مراد لیتا ہے۔ اور یہ ان پر جھوٹ ہے، کیونکہ انہوں نے اسے وہاں نقل کیا نہ ہی اس کے علاوہ کسی اور جگہ، اور وہ اسے کس طرح نقل کرتے جبکہ حدیث ان کی شرط کے مطابق نہیں؟ کیونکہ ان چھ میں سے کسی ایک نے اسے روایت نہیں کیا جن کی احادیث کو انہوں نے اپنی کتاب میں جمع کیا ہے، اور وہ: مالک، شیخین اور ’’سنن اربعہ‘‘ کے مؤلفین! سوائے ابن ماجہ کے! پھر میں نے اسے دیکھا کہ اس نے اپنے اکاذیب مذکورہ کو اپنی کتاب ’’المراجعات‘‘ (ص۱۶۰) میں مکرر بیان کیا! اور حدیث کے دوسرے طرق ساقط ہیں، اس کے الفاظ رقم (۴۹۵۸) کے تحت تفصیلاً آئیں گے۔ پھر میں نے ابن المطہر الحلی کو دیکھا کہ وہ اپنے جھوٹ بولنے میں عبدالحسین پر بازی لے گیا ہے، وہ اس (شعبے) میں اس کا امام ہے، اس کے بہت سے جھوٹوں میں سے جیسا کہ آئیں گے! اس نے اپنی کتاب ’’منہا ج الکرامۃ فی اثبات الامامۃ‘‘ (ص۷۴۔ تحقیق ڈاکٹر محمد رشاد سالم) میں بیان کیا اور اس نے یہ آیت: ﴿ وَھُمْ رَاکِعُوْنَ﴾ (المائدۃ: ۵۵) ذکر کی تو کہا: ’’ان کا اس پر اجماع ہے کہ یہ آیت علی علیہ السلام کے بارے میں نازل ہوئی …… ‘‘ پھر اس نے دو سرے الفاظ کے ساتھ مطول حدیث بیان کی جو زیر بحث حدیث سے زیادہ منکر ہے اس نے اسے ثعلبی کی روایت سے ابو ذر سے ذکر کیا، اور خمینی نے (ص۱۵۸) پر اس کی متابعت کی! اور عنقریب رقم
Flag Counter