’’الخصائص‘‘ میں، اور یہ نسبت کس طرح صحیح ہو سکتی ہے، اس نے اسے ان کی طرف منسوب نہیں کیا جنہوں نے اس حدیث کی روایات کو نقل کیا اور اس نے انہیں کتب السنۃ کے معروف مصادر کی طرف منسوب کر دیا، جیسے حافظ ابن کثیر اور سیوطی وغیرہما؟!
اس پر مزید یہ کہ الحافظ المزی رحمہ اللہ نے حدیث کو مطلق طور پر مسند عبداللہ بن سلام میں ان کے اطراف سے نقل نہیں کیا۔ جبکہ وہ اس میں نسائی کی ’’السنن الکبری‘‘ پر اعتمادکرتے ہیں!
اور نہ ہی النابلسی نے ’’ذخائر‘‘ میں (روایت کیا) اس میں ان کا اعتماد ’’السنن الصغری‘‘ پر ہے!
اور رہی ’’الخصائص‘‘ تو میں نے بذات خود اسے دیکھا ہے!
(۳)… اس کا یہ کہنا: ’’فی صحیحہ‘‘ (اپنی صحیح میں) !! یہ اس کے کھلے جھوٹوں میں سے ہے، کیونکہ اس علم شریف کے ابتدائی طالب علم بھی جانتے ہیں کہ النسائی رحمہ اللہ کی ایسی کوئی کتاب نہیں جو ’’الصحیح‘‘ سے معروف ہو، ظن غالب یہی ہے کہ شیعہ اس کذب کو تقیہ کی قبیل سے حلال جانتے ہیں یا وسیلے کو جائز قرار دینے کی غایت کی قبیل سے ہے! اس (تقیہ) نے انہیں کھلے جھوٹ کی اباحت میں داخل کر دیا، تا کہ عام قارئین کو گمراہ کر سکیں اور یہ اس کے نزدیک بہت زیادہ ہے! میں نے اسے دیکھا اس نے علی بن المنذر (ص۹۸) کی سوانح حیات میں بیان کیا:
’’امام النسائی نے اس کی روایت سے ’’ الصحیح‘‘ میں دلیل لی ہے!‘‘
اور اس کا یہ طرز عمل تمام ’’السنن الاربعۃ‘‘ میں ہے، کبھی سب کے بارے میں، اور کبھی ایک کے بارے میں، وہ (ص۵۰) کہتا ہے:
’’یہ ان کی صحاح ستہ ہیں!‘‘
اسی طرح (ص۵۴) پر ہے۔
اسے ابو داؤد اور ترمذی نے ذکر کیا، اور کہا:
’’اپنی صحیح میں‘‘ (ص۵۵،۵۷،۹۵،۱۱۶)
نسائی اور ابو داؤد نے ذکر کیا، اور کہا:
’’ان دونوں کی صحیح کی طرف رجوع کرو!‘‘ (ص۵۹)
اور وہ نفیع بن حارث (ص۱۱۱) کے حالاتِ زندگی میں بیان کرتا ہے: ’’امام ترمذی نے اپنی ’’صحیح‘‘ میں اس سے دلیل لی ہے!‘‘
میں نے کہا: اور اس میں ایک اور جھوٹ ہے، اور وہ ہے اس کا کہنا:
|