میں نے ابو جعفر محمد بن علی سے اللہ عزوجل کے فرمان: ﴿اِنَّمَا وَلِیُّکُمُ اللّٰہُ﴾ کے بارے میں سوال کیا، ہم نے کہا: ایمان لانے والے کون ہیں؟ انہوں نے کہا: ﴿اَلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا﴾ (اور ابو نعیم کے الفاظ ہیں کہ انہوں نے کہا: اصحاب محمد صلی اللہ علیہ وسلم ) ہم نے کہا: ہمیں پتہ چلا ہے کہ وہ علی بن ابی طالب کے بارے میں نازل ہوئی ہے؟ انہوں نے فرمایا: علی( رضی اللہ عنہ ) بھی ایمان لانے والوں میں سے ہیں۔
اس کی اسناد صحیح ہیں۔
میں نے کہا: اگر یہ آیت خاص طور پر علی رضی اللہ عنہ کے بارے میں نازل ہوئی ہے، تو ان کے اہل بیت اور ان کی اولاد اس کی معرفت کی زیادہ حق دار تھی، یہ ابو جعفر الباقر رضی اللہ عنہ ہیں ان کے پاس اس کے متعلق کوئی علم نہیں۔
اور یہ بہت سے دلائل میں سے ہے کہ شیعہ اپنے اماموں کے ساتھ ایسی ایسی چیزیں منسلک کر دیتے ہیں جن کے متعلق ان کے پاس علم نہیں ہوتا!
پھر ہمارے شیخ نے ’’اسی مصدر‘‘ (۱۰/۵۸۴۔۵۸۹) میں بیان کیا:
تنبیہ:… الشیعی نے اپنی کتاب (ص۳۶) میں بیان کیا:
’’مفسرین کا اس پر اجماع ہے۔ جیسا کہ القوشجی نے اس کا اعتراف کیا (اور وہ اشاعرہ کے ائمہ میں سے ہے) کہ یہ آیت علی رضی اللہ عنہ پر نازل ہوئی جس وقت انہوں نے نماز میں حالت رکوع میں صدقہ کیا، امام نسائی نے اسے اپنی ’’صحیح‘ـ‘! میں اس کا نزول علی کے متعلق ہوا، روایت کیا: اور یہ عبداللہ بن سلام کے حوالے سے ہے، اس کا ان کے بارے نزول ’’الجمع بین الصحاح الستۃ‘‘ کے مؤلف نے سورۃ المائدہ کی تفسیر میں نقل کیا ہے!!‘‘
میں نے کہا: اس کلام میں ۔ کم از کم۔ کئی جھوٹ ہیں:
(۱)… اس کا یہ کہنا: ’’مفسرین کا اجماع ہے‘‘ باطل ہے۔ خواہ قائل ایسا شخص ہو جس نے اس کے متعلق اعتراف کو اس کی طرف منسوب کیا ہو یا کوئی اور ہو! کس طرح ہو سکتا ہے جبکہ یہ بیان ہو چکا کہ۔ روایت کے لحاظ سے۔ زیادہ راجح یہ ہے کہ اس کا نزول عبادہ بن صامت کے بارے میں ہے؟ اور وہاں کچھ اقوال ہیں جنہیں محقق آلوسی (۲/۳۳۰) نے اس اجماعِ مزعوم کے رد پر بیان کیا ہے اور یہ کس طرح صحیح ہو سکتا ہے کہ اس بارے میں امام المفسرین ابن جریر طبری نے خلاف نقل کیا ہے؟! اور ابن حبان اور ابن کثیر نے اس کے خلاف کو ترجیح دی ہے جیسا کہ بیان ہوا؟!
(۲)… اس کا یہ کہنا: ’’النسائی نے اسے روایت کیا …‘‘! یہ بھی کذب ہے، امام نسائی نے اپنی معروف کتب میں سے کسی بھی کتاب میں اسے نقل نہیں کیا۔ اپنی ’’السنن الصغری‘‘ میں نہ ’’السنن الکبری‘‘ میں اور نہ ہی
|