(۴۹۸۵) کے تحت بیان آئے گا۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہ نے اس کے اس استدلال کو کئی وجوہ سے باطل قرار دیا ہے، جو انیس وجوہات تک پہنچتی ہیں، یہاں ہم ان میں سے دوسری وجہ بیان کریں گے، آپ رحمہ اللہ (۴/۴) نے بیان کیا۔ اور الحافظ الذہبی نے ’’المنتقی‘‘ (ص۴۱۹) میں اسے برقرار رکھا۔
اس کا یہ کہنا: ’’ان کا اس پر اجماع ہے کہ وہ علی کے بارے میں نازل ہوئی۔‘‘ سب سے بڑا جھوٹا دعوی ہے، بلکہ روایت کرنے والے اہل علم کا اس پر اجماع ہے کہ وہ خاص طور پر علی کے بارے میں نازل نہیں ہوئی، اور یہ حدیث وضع کردہ کذب میں سے ہے، اور ’’تفسیر ثعلبی‘‘ میں موضوع روایات ہیں، وہ رطب و یابس کلام کرنے والے تھے، ان میں خیر اور دین ہے، لیکن وہ احادیث میں سے صحیح و ضعیف کی تمیز نہیں کرسکتے تھے، پھر ہم تمہارے دعوی اجماع سے درگزر کرتے ہیں اور تم سے ایک صحیح سند کا مطالبہ کرتے ہیں، اور تم نے جو اسے ثعلبی سے نقل کیا ہے وہ کمزور ہے، اس میں ایسے راوی ہیں جو متہم ہیں…‘ ‘
پھر شیخ الاسلام نے ذکر کیا کہ اس آیت میں ایسی چیز ہے جو اس روایت کے کذب پر دلالت کرتی ہے، انہوں نے کہا:
’’اگر اس آیت سے یہ مراد ہو کہ زکوٰۃ حالت رکوع میں دی جائے گی، تو پھر واجب تھا کہ یہ معمولات میں شرط ہوتی، اور وہ یہ کہ مسلمان صرف علی ہی کو دوست بنائے، وہ حسن و حسین کو دوست و ولی نہ بنائے! پھر یہ ﴿اَلَّذِیْنَ یُقِیْمُوْنَ﴾ (المائدۃ: ۵۵) ’’وہ قائم کرتے ہیں۔‘‘ جمع کا صیغہ ہے، وہ فرد واحد پر صادق نہیں آتا، آدمی کی کسی قابل تعریف چیز پر ہی تعریف کی جاتی ہے، اور نماز میں ایسا کرنا (صدقہ کرنا) مستحب نہیں، اگر مستحب ہوتا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایسا کرتے، اور اس پر ترغیب دلاتے اور علی اس فعل کو بار بار کرتے، بے شک نماز میں مصروفیت ہوتی ہے۔ تو پھر کس طرح کہا جائے گا: ’’تمہارا کوئی ولی نہیں مگروہ لوگ جو حالت رکوع میں صدقہ کرتے ہیں… ‘‘
اور یہ بہت ہی اہم ہے، اس میں شیخ کا علم ہے جو ان کے علاوہ کسی کے پاس نہیں، اگر طوالت اور قصد سے باہر نکلنا نہ ہوتا تو میں اسے اس کے تمام پہلوؤں کے حوالے سے نقل کرتا، یا کم از کم خلاصہ ضرور نقل کرتا۔
عبدالحسین کی گمراہیوں اور قارئین کو اس کے ابہام ڈالنے میں سے ہے کہ اس نے اس اجماع کاذب کا دعویٰ کرنے کے بعد یوں کہا:
’’… جیسا کہ القوشجی نے اس کا اعتراف کیا، اور وہ اشاعرہ کا امام ہے!‘‘
پس یہ قوشجی کون ہے؟ اور وہ کس دور میں تھا؟
|