پس اس کی بنا پر، جب آیت تطہیر [1] میں ارادہ، ارادہ شرعی تھا تو تطہیر سے جو مراد ہے اس کا وقوع لازم نہیں آتا، وہ تو اللہ تعالیٰ کی اہل بیت کے لیے محبت ہے کہ وہ انہیں پاک کرے، اس کے برعکس اگر ارادہ کونی ہو، تو اس کا معنی ہے کہ ان کی تطہیر ایسا امر ہے جس کا ہونا ضروری ہے، اور اس سے شیعہ اہل بیت کی عصمت کے متعلق اپنے قول پر جمے ہوئے ہیں، شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے اس بارے میں ان کی گمراہی کے متعلق اپنی کتاب ’’منہاج السنہ‘‘ کے متعدد مقامات پر تسلی بخش وضاحت کی ہے، پس اس میں کوئی مضائقہ نہیں کہ میں اس میں سے کچھ حصہ قارئین کرام کی خدمت میں پیش کردوں کہ ہمارا جو موقف ہے ان کا اس سے کتنا مضبوط ربط و تعلق ہے، مذکورہ آیت سے علی رضی اللہ عنہ کی عصمت کا دعویٰ کرنے والے شیعہ کی تردید کرتے ہوئے انہوں نے فرمایا:
’’رہی سورہ احزاب کی آیت ﴿وَیُطَہِّرَکُمْ تَطْہِیْرًا﴾ تو اس میں پاکیزگی کے ذریعے ناپاکی دور کرنے کی اطلاع نہیں، بلکہ اس میں ان کے لیے امر ہے جو ان دونوں کو واجب کرتا ہے، اور یہ اللہ تعالیٰ کے درج ذیل فرامین کی طرح ہے:
﴿ مَا یُرِیْدُ اللّٰہُ لِیَجْعَلَ عَلَیْکُمْ مِّنْ حَرَجٍ وَّ لٰکِنْ یُّرِیْدُ لِیُطَہِّرَکُمْ ﴾ (المائدۃ: ۶)
’’اللہ تم پر کسی طرح کی تنگی کرنا نہیں چاہتا، لیکن وہ چاہتا ہے کہ تمہیں پاک صاف رکھے۔‘‘
نیز فرمایا:
﴿یُرِیْدُ اللّٰہُ لِیُبَیِّنَ لَکُمْ وَ یَھْدِیَکُمْ ﴾ (النساء:۲۶)
’’اللہ چاہتا ہے کہ تمہارے واسطے (احکام شرعی) واضح کر دے اور تمہاری راہنمائی فرمائے۔‘‘
اور فرمایا:
﴿یُرِیْدُ اللّٰہُ اَنْ یُّخَفِّفَ عَنْکُمْ ﴾ (النساء: ۲۸) ’’اللہ تو چاہتا ہے کہ تم سے بوجھ ہلکا کرے۔‘‘
ان آیات میں ارادہ امر و محبت اور رضا کو شامل ہے، وہ وقوعِ مراد کو لازم نہیں کرتا، اور اگر وہ اسی طرح ہوتا تو پھر وہی پاک ہوتا جس کے پاک کرنے کا اللہ ارادہ فرماتا، اور یہ ہمارے دور کے شیعہ کے قول کی مطابق ہے، جبکہ معتزلہ کہتے ہیں: اللہ اس چیز کا ارادہ کرتا ہے جو نہ ہوا ہو، پس اس کا فرمان ہے: ﴿لِیُذْھِبَ عَنْکُمُ الرِّجْسَ﴾ (الاحزاب: ۳۳) ’’تاکہ تم سے ناپاکی دور کر دے۔‘‘ جب وہ فعل مامور اور ترک محظور سے متعلق ہو تو یہ ان کے ارادوں اور ان کے افعال کے متعلق تھا، تو اگر انہوں نے وہ کر لیا جس کا انہیں حکم دیا گیا تو وہ پاک ہو گئے۔
اس سے جو واضح ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ یہ اس چیز سے ہے جس کا انہیں حکم دیا گیا ہے نہ کہ اس سے جس کے
|