Maktaba Wahhabi

239 - 756
پھر اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿وَتَحْسَبُوْنَہُ ھَیِّنًا وَّھُوَ عِنْدَاللّٰہِ عَظِیْمٌ﴾ (النور: ۱۵) ’’اور تم اسے معمولی سمجھتے تھے جبکہ وہ اللہ کے نزدیک بڑی بھاری بات تھی۔‘‘ یعنی: تم نے ام المومنین کی شان میں جو جو باتیں کہیں، اور تم انہیں بالکل معمولی سمجھ رہے تھے، اگر وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ نہ بھی ہوتیں تو بھی یہ (بات) معمولی نہ تھی، پس کس طرح جبکہ وہ نبی اُمی خاتم الانبیاء و سید المرسلین کی زوجہ ہوں، یہ اللہ کے نزدیک بہت بڑی اور بھاری بات ہے کہ اس کے نبی اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ کے بارے میں اس طرح کی باتیں کی جائیں، اللہ سبحانہ وتعالیٰ کو اس پر غیرت آتی ہے، اور اس سبحانہ و تعالیٰ نے انبیاء میں سے کسی نبی کی زوجہ پر اسے مقدر نہیں کیا، یہ قطعاً نہیں ہوسکتا، جب ایسے نہیں ہوا، تو پھر یہ انبیاء کی ازواج کی سردار، آدم کی اولاد کے دنیا و آخرت میں مطلق طور پر سردار کی زوجہ ہو کس طرح میں سکتا ہے، اس لیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا، ﴿وَتَحْسَبُوْنَہُ ھَیِّنًا وَھُوَ عِنْدَا للّٰہِ عَظِیْمٌ﴾ (النور:۱۵) ’’اور تم اس (بات) کو معمولی سمجھتے تھے جبکہ وہ اللہ کے نزدیک بڑی بھاری بات تھی۔‘‘ میں کہتا ہوں: ہم نے امکان کے حوالے سے جو ذکر کیا ہے یہ اس کے منافی نہیں، کیونکہ آپ رحمہ اللہ کے کلام میں بیان ہونے والی عصمت اور جو اس کے معنی میں ہے اس سے مقصود صرف وہ عصمت ہے جس پر اس وحی نے دلالت کی اگر وہ نہ ہوتی تو اس کا بنیاد پر قائم رہنا لازم آتا، اور جس امکان کی طرف اشارہ کیا گیا ہے یہ وہی ہے، اس سے وہی مراد ہے جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اس فرمان : ’’معصوم وہ ہے جسے اللہ نے بچایا ہو۔‘‘ سے مراد لیا، اور یہ حدیث صحیح بخاری وغیرہ میں ہے، اور اس سے وہ عصمت مراد نہیں جو انبیاء علیہم الصلوٰۃ والسلام سے مخصوص ہے، اور وہی ہے جو امکان مذکور کی نفی کرتی ہے، اس کے متعلق غیر انبیاء کے بارے میں بات کرنا اللہ پر علم کے بغیر بات کرنے کے مترادف ہے، اور یہ ہے جس کی ابو بکر صدیق نے بذات خود اس قصے میں بحیثیت باپ اپنی خواہش کے خلاف صراحت کی، البزار نے صحیح سند کے ساتھ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کیا کہ جب ان (عائشہ رضی اللہ عنہا ) کا بے گناہ ہونا نازل ہوا تو ابوبکر رضی اللہ عنہ نے ان کے سر کو بوسہ دیا، تو آپ نے عرض کیا: آپ نے میرا عذر کیوں نہ پیش کیا (کہ میں بے گناہ ہوں؟) انہوں نے فرمایا: کون سا آسمان مجھ پر سایہ کرتا اور کون سی زمین مجھے اٹھائے پھرتی اگر میں کوئی ایسی بات کرتا جس کا مجھے علم نہیں؟! [1] یہی وہ موقف ہے جو ہر مسلمان پر واجب ہے کہ وہ اسے ہر اس مسئلے کے سامنے روک دے جب تک شرع حنیف ایسی چیز پیش نہ کرے جو اس شخص کی خواہش کے موافق ہو، اور وہ اپنی خواہش کو اپنا معبود نہ بنائے۔ پھر ہمارے شیخ نے اسی مصدر (۶/۳۳۔ ۳۵) میں فرمایا:
Flag Counter