Maktaba Wahhabi

238 - 756
پھر حافظ نے قاضی عیاض سے نقل کرتے ہوئے اس کی علمی گرفت کی ہے جس میں اعتراف کے معاملے کے متعلق اس کا خیال ہے، پس جو چاہے اس کی طرف رجوع کرے، لیکن انہوں نے اس کے اس قول کو تسلیم کیا ہے کہ کسی نبی ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کے لیے حلال نہیں کہ وہ اس (بیوی) کو اپنے پاس رکھے جس سے اس قسم کا گناہ سرزد ہو۔ اور یہ اللہ تعالیٰ کی اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں غیرت ہے، لیکن اس سبحانہ وتعالیٰ نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا اور باقی تمام امہات المومنین کو اس سے محفوظ رکھا جیسا کہ یہ ان کی زندگی کی تاریخ سے پتہ چلتا ہے، نیز خاص طور پر عائشہ رضی اللہ عنہا کی برائت کا نازل ہونا، اگرچہ عقلی طور پر اس کا وقوع ممکن تھا کیونکہ اس کے ان کے متعلق محال ہونے کے عدم وجود پر کوئی نص نہیں تھی۔ اسی لیے اس قصے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا موقف توقف کرنے (ٹھہرنے) والے کے موقف کی طرح تھا، اور آپ اس بارے میں شک کو ختم کردینے والی وحی کے نزول کے منتظر تھے، جو ترجمہ حدیث میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان: ’’تم آدم کی بیٹیوں میں سے ہو، اگر تم بری ہوئیں تو عنقریب اللہ تمہاری براء ت نازل فرما دے گا، اور اگر تم نے کوئی گناہ کیا ہے تو اللہ سے مغفرت طلب کرو اور …‘‘ سے ظاہر ہوتا ہے، اسی لیے الحافظ نے حدیث کے فوائد بیان کرتے ہوئے فرمایا: ’’اس (حدیث) میں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنی ذات کے بارے میں بھی نزول وحی کے بعد فیصلہ فرمایا کرتے تھے، شیخ ابومحمد بن ابی حمزہ نے اس (فائدے) پر متنبہ فرمایا۔ اللہ ان کے ذریعے فائدہ پہنچائے۔‘‘ یعنی: کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے نزول وحی کے بعد ہی عائشہ رضی اللہ عنہا کی برائت کے متعلق قطعی بات فرمائی، اس میں قوی علامت ہے کہ وہ امر اپنی حد تک ممکن الوقوع ہے، اور وہی ہے جو قصے کے تمام حوادث اسی کے گرد گھومتے ہیں، اور شارحین کا کلام اسی پر ہے، اور یہ اللہ تعالیٰ کے فرمان: ﴿ضَرَبَ اللّٰہُ مَثَلًا لِّلَّذِیْنَ کَفَرُوْا امْرَاَۃَ نُوحٍ وَّامْرَاَۃَ لُوطٍ کَانَتَا تَحْتَ عَبْدَیْنِ مِنْ عِبَادِنَا صَالِحَیْنِ فَخَانَتَاہُمَا فَلَمْ یُغْنِیَا عَنْہُمَا مِنَ اللّٰہِ شَیْئًا وَّقِیْلَ ادْخُلاَ النَّارَ مَعَ الدَّاخِلِیْنَ ﴾ (التحریم: ۱۰) ’’اللہ نے کافروں کے لیے نوح کی بیوی اور لوط کی بیوی کی مثال بیان کی ہے، وہ دونوں ہمارے دو نیک بندوں کے نکاح میں تھیں، ان دونوں نے ان دونوں کی خیانت کی، تو اللہ کے مقابلے میں کوئی چیز بھی ان کے کچھ کام نہ آ سکی، اور کہا گیا جہنم کی آگ میں داخل ہونے والوں کے ساتھ تم دونوں بھی داخل ہو جاؤ۔‘‘ کی تفسیر کے بارے میں حافظ ابن کثیر کے اس قول کے منافی نہیں: ’’اور اللہ تعالیٰ کے فرمان: ’’فَخَانَتَا ھُمَا‘‘ ان دونوں نے خیانت کی‘‘ سے بے حیائی کے بارے میں خیانت مراد نہیں، بلکہ وہ دین کے بارے میں خیانت ہے، کیونکہ انبیاء کی ازواج انبیاء کی حرمت کی وجہ سے بے حیائی کا ارتکاب کرنے سے معصوم و محفوظ ہوتی ہیں، جیسا کہ ہم نے اسے سورۃ النور کی تفسیر میں بیان کیا۔‘‘ اور انہوں نے وہاں (۶/۸۱) فرمایا:
Flag Counter