اس سے تو یہ واضح ہوتا ہے کہ یہ انہیں حکم دیا گیا ہے نہ کہ اس میں امر واقع کے بارے میں خبر دی گئی ہے، ’’الصحیح‘‘ میں جوثابت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فاطمہ، علی، حسن اور حسین پر چادر اوڑھی، پھر دعا کی: ’’اللہ! یہ میرے اہل بیت ہیں، ان سے ناپاکی دور کر دے اور انہیں خوب اچھی طرح پاک کر دے۔‘‘ (صحیح مسلم) پس اس میں اس بات کی دلیل ہے کہ آپ نے اس کے وقوع کے بارے میں خبر نہیں دی، کیونکہ اگر وہ واقع ہوتا تو آپ اس کے وقوع پر اللہ کی ثنا بیان کرتے، اور اس پر اس کا شکر ادا کرتے، آپ صرف دعا پر ہی اکتفا نہ کرتے۔‘‘
ہمارے شیخ رحمہ اللہ نے ’’الصحیحۃ‘‘ (۳/۲۱۰) میں حدیث رقم (۱۲۰۸) کے تحت فرمایا: عائشہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’اگر تم نے کوئی گناہ کیا ہے تو اللہ سے مغفرت طلب کر اور اس کے حضور توبہ کر، کیونکہ گناہ سے توبہ ندامت و استغفار ہے۔‘‘
اور اس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج کے معصوم نہ ہونے کی دلیل ہے۔ جو کہ بعض گمراہوں کے موقف کے خلاف ہے!
ہمارے شیخ نے اس اہم مسئلے کے بیان میں، جس کی نص ’’الصحیحۃ‘‘ (۶/۲۶۔۲۸) میں ہے، حدیث رقم (۲۵۰۷)[1] کے تحت فرمایا:
اور یہ کہنا: ’’أَلْمَمْتِ‘‘ حافظ نے فرمایا: یعنی تم سے خلاف عادت واقع ہوا ہے اور یہ لفظ الالمام کی حقیقت ہے۔ اور اسی سے ہے۔
(( أَ لَمَّتْ بِنَا وَاللیلُ مُرْخٍ ستورہُ۔))
’’وہ خلاف عادت ہمارے پاس آئی جبکہ رات چھا رہی تھی۔‘‘
داوودی نے کہا: ’’آپ نے انہیں اعتراف کرنے کا حکم فرمایا، اور آپ نے انہیں چھپانے پر آمادہ نہیں کیا تاکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج اور دیگر خواتین کے درمیان فرق رہے، پس آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج پر ان سے ہونے والے واقعہ کے متعلق اعتراف کرنا واجب ہے اور ان پر واجب ہے کہ وہ اسے نہ چھپائیں، کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے اسے روکنا حلال نہیں جو ان میں سے اس میں مبتلا ہو، دیگر لوگوں کی خواتین کے برعکس، کیونکہ انہیں ستر پوشی پر آمادہ کیا جاتا ہے۔‘‘
|