جب تک انہوں نے اس حدیث کی اسناد کے ضعف کی وضاحت نہیں کی، جو اس میں ان کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے سنننے کی صراحت کی گئی اور وہ یہ حدیث ہے، پھر اس کے بعد کسی دوسرے طریق سے ایسی چیز بیان نہ کی جو ان کے صحابی ہونے کے ثبوت پر دلالت کرتی ہو، اور یہ ’’التجرید‘‘ میں امام الذہبی کے (۱/۱۹۹) اس طرح کہہ کر نفی کرنے سے زیادہ فصیح ہے:
’’زیاد بن مطرف، مطین نے انھیں صحابہ میں ذکر کیا، اور وہ صحیح نہیں۔‘‘
اور جب آپ نے یہ جان لیا تو انہیں مجہول تابعین میں ذکر کرنا اس سے بہتر ہے کہ انہیں صحابہ کرام میں ذکر کیا جائے اور اس پر وہ حدیث میں تیسری علت ہے۔
اس حدیث میں ان تمام علل (عیوب) کے باوجود الشیعی ہم سے چاہتا ہے کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالے سے اس کے صحیح ہونے پر یقین کرلیں اور ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان: ’’جس نے مجھ سے کوئی حدیث بیان کی جبکہ وہ سمجھتا ہے کہ وہ کذب ہے تو وہ بھی جھوٹوں میں سے ایک ہے۔‘‘ کی پروا نہ کریں، مسلم نے اس حدیث کو اپنی صحیح کے مقدمے میں روایت کیا ہے۔ فاللہ المستعان۔
شیعہ مذکور کی کتاب ’’المراجعات‘‘[1] علی رضی اللہ عنہ کی فضیلت میں ضعیف اور موضوع احادیث سے بھری ہوئی ہے، اس کے ساتھ ساتھ اس علم شریف سے لاعلمی، قارئین پر تدلیس اور حقیقی سچ سے بہکانے سے بھرپور ہے، بلکہ صریح کذب ہے، ممکن ہے کہ کسی قاری محترم کے دل میں خیال آئے کہ کوئی مؤلف جو عزت نفس رکھتا ہو اس طرح کا کام کیونکر کرسکتا ہے، اسی لیے میں نے ان احادیث کی (ان کی کثرت کے ہوتے ہوئے) تخریج اور ان کے علل و ضعف بیان کرنے کی ہمت کی اور ان پر تدلیس و تضلیل کے حوالے سے جو جو کلام ہے اس سے بھی پردہ اٹھایا ہے اور اس میں سے یہ عنقریب اللہ کے حکم سے (رقم: ۴۸۸۱۔ ۴۹۷۵)بیان ہوگا۔
ان احادیث میں سے جنھیں الموسوی! نے ’’المراجعات‘‘ میں ذکر کیا ہے حدیث رقم (۲/۸۹۴) ’’الضعیفۃ‘‘ سے ہمارے شیخ نے اسے ذکر کیا، پھر اس میں الموسوی پر علمی گرفت کی، اس کی کتاب میں موضوعات میں سے یہ ہے:
|