Maktaba Wahhabi

223 - 756
حیات کے بارے میں حافظ نے تقریباً چوتھائی صدی صرف کی، پورا معاملہ اس طرح ہے کہ حافظ نے ’’الاصابۃ‘‘ میں ارادہ کیا کہ وہ کہیں: ’’…الاسلمی ضعیف ہے۔‘‘ پس انہوں نے وہم کے طور پر کہہ دیا: ’’المحاربی ضعیف ہے۔‘‘ پس شیعہ نے اس وہم کو بہت ہی غلط استعمال کیا، بجائے اس کے کہ وہ آگاہ کرتا کہ وہم کمزور اور ضعیف ہونے کے بارے میں نہیں ہے، اس نے ’’الاسلمی‘‘ کی جگہ ’’المحاربی‘‘ لکھ دیا اور وہ قارئین کو اس کے برعکس وہم ڈالنے لگا اور وہ یہ کہ حدیث کا راوی المحاربی ثقہ ہے نہ کہ الاسلمی ضعیف! پس کیا اس کا یہ کرنا اس شخص کی بات کی تائید کرتا ہے جس نے کتاب کے شروع میں اس کے سوانح حیات بیان کرتے ہوئے اس کی صفائی پیش کرتے ہوئے کہا: ’’اس کی ساری تالیفات کا یہ امتیاز ہے کہ ان میں بڑی باریک بینی سے علمی گرفت کی گئی ہے… نقل کرنے میں امانت کا اہتمام ہے۔‘‘ جناب! یہ امانتِ نقل کہاں ہے جبکہ وہ ’’المستدرک‘‘ سے حدیث نقل کرتا ہے اور وہ اس میں یحییٰ بن یعلی کو دیکھتا ہے جو کہ موصوف ہے کہ وہ ’’اسلمی‘‘ ہے پس وہ اس سے ناواقف بن جاتا ہے اور الحافظ کی خطا کو غلط استعمال کرتا ہے تا کہ وہ قارئین کو وہم ڈال سکے کہ محاربی ثقہ ہے، اور اس کی امانت کہاں ہے جبکہ وہ حدیث کے لیے اس اسلمی کے متعلق امام ذہبی اور امام ہیثمی کی جرح نقل نہیں کرتا؟ مزید یہ کہ امام ذہبی نے اسے ایسی چیز کے ساتھ معیوب قرار دیا ہے جو ضعف کے حوالے سے اس سے زیادہ شدید ہے جیسا کہ آپ نے دیکھا، اسی لیے امام سیوطی نے اسے ’’الجامع الکبیر‘‘ میں اس کے متعلق ضعیف قرار دینے کے حوالے سے قلت اہتمام اور قلت توجہ کے طور پر فرمایا: ’’وہ ضعیف ہے۔‘‘ اسی طرح ’’کنز العمال‘‘ میں رقم (۲۵۷۸)کے تحت ہے، الشیعی نے وہاں سے حدیث نقل کی، لیکن اس نے اس حدیث کے ساتھ اس کا ضعیف ہونا نقل نہیں کیا، پس وہ امانت جس کا دعویٰ کیا گیا تھا، کہاں ہے؟! تنبیہ…: حافظ ابن حجر نے زیاد بن مطرف کے حالاتِ زندگی میں ’’الصحابہ‘‘ سے قسم اوّل میں ایک حدیث ذکر کی، اور یہ قسم خاص ہے جیسا کہ انہوں نے اس کے مقدمے میں بیان کیا: ’’جس کے بارے میں ان سے روایت کیا یا ان کے علاوہ کسی اور سے روایت کے طریق سے اس کا صحابی ہونا وارد ہوا ہو، خواہ طریق صحیحہ ہو یا طریق حسنہ یا ضعیفہ یا اس کا ذکر واقع ہوا ہو جو صحابیت پر دلالت کرتا ہو خواہ وہ کسی بھی طریق سے ہو، میں نے پہلے اس قسم واحد کو تین اقسام پر مرتب کیا تھا۔ پھر مجھے خیال آیا کہ میں اسے ایک قسم بنادوں اور ہر سوانح حیات میں اسے واضح کردوں۔‘‘ میں نے کہا: حافظ کے صحابی کو اس قسم میں ذکر کرنے سے کوئی فائدہ نہ ہوگا کہ ان کا صحابی ہونا ثابت ہے،
Flag Counter