ہاں اس کے مثل ہے، کہاں تک صحیح ہے تاکہ آپ جان لیں میں آپ کو حقیقت بیان کرتا ہوں:
اور وہ (حقیقت) یہ ہے کہ احادیث مرفوعہ کی یہ تعداد، ان میں سے کسی چیز کی اسناد ان کے راویوں کے ضعف اور ان کی اسناد کے انقطاع کی وجہ سے ثابت نہیں ہوتیں، جیسا کہ اس (کتاب الکافی) پر تعلیق لکھنے والے نے احادیث رقم ۵۷، ۸۰ اور ۱۹۹ کے سوا اس کی ہر حدیث پر تعلیق میں اس کے متعلق اسے بیان کیا ہے، البتہ اس نے ان مذکورہ تین احادیث کو قوی قرار دیا ہے اور اس کے باوجود وہ پاک صاف علمی جرح کے سامنے نہیں ٹھہر سکتیں!
درج ذیل گواہی لیں، جو آپ کو اس قول کی حقیقت واضح کرے گی، اور وہ اسی تعلیق لکھنے والے عبد الحسین کی طرف سے ہے، اس نے اس کتاب کے متعلق شرح و اختصار اور جرح کے حوالے سے شیعہ کا اہتمام ذکر کرنے کے بعد (ص۱۹) بیان کیا:
’’تمھارے لیے کافی ہے کہ تم اس کے متعلق جرح و تنقید کے اہتمام کی حد و غایت جان لو کہ، انہوں نے جو شمار کیا وہ جن احادیث پر مشتمل ہے اس کا مجموعہ (۱۶۱۹۹) احادیث تھا، پھر انہوں نے توثیق و تصحیح کے حوالے سے انواع احادیث کو شمار کیا تو انہوں نے احادیث صحیحہ شمار کیں تو وہ (۵۰۷۳) تھیں، یعنی: تہائی سے بھی کم، انہوں نے ضعیف احادیث شمار کیں تو وہ (۹۴۸۵) تھیں، یعنی: نصف سے بھی زیادہ، اور یہ موثق قوی اور مرسل کے علاوہ ہیں، پس دیکھیں اس کی جرح و تنقید کی حد و غایت کہاں تک پہنچی ہے۔‘‘
میں کہتا ہوں: ان کی کتاب ’’الصحیح‘‘ کے ’’شاباش‘‘ جبکہ ان کی نصف احادیث یعنی: ان کے ائمہ پر مرفوع و موقوف… صحیح نہیں! اس کے متعلق یہ اس کی گواہی ہے جو سب سے زیادہ اس کا طرف دار اور اس کا دفاع کرنے والا ہے! ﴿وَشَہِدَ شَاہِدً مِّنْ أَہْلِہَا﴾ (یوسف:۲۶) ’’اور اس کے گھر والوں میں سے ایک گواہ نے گواہی دی۔‘‘
اور میں نے تمھارے لیے یہ حدیث، سند کے لحاظ سے ان ضعیف احادیث کی مثال کے طور پر پیش کی ہے، تاکہ آپ جان لیں کہ ان میں جو ہے اس علم شریف سے بنیادی و ابتدائی طور پر معلومات رکھنے والا کس طرح متن کے لحاظ سے ان کے بطلان پر قطعی فیصلہ کرتا ہے، بے شک وہ الفاظ جو اس میں وارد ہوئے ہیں، ’’ناسخ و منسوخ اور محکم و متشابہ‘‘ وہ دوسرے الفاظ کی طرح جن پر اہل علم کا اتفاق ہے، جیسے ’’العام والخاص، المطلق والمقید‘‘ اور اس طرح کی اصطلاحات جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد وجود میں آئیں۔ البتہ وہ اس پر سب سے بڑی دلیل ہے کہ وہ حدیث باطل اور موضوع ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے نہیں فرمایا، اور جعفر بن محمد نے اپنے والد-اللہ ان دونوں سے راضی ہو- سے اسے روایت کیا نہ ابن شبرمہ نے اسے روایت کیا، کیونکہ وہ ثقہ فقیہ ہیں، وہ اس سے کہیں
|