بارے میں علماء کے موقف ذکر کیے:
’’اور شیخ ابومحمد المقدسی نے فرمایا: اس میں کوئی مضائقہ نہیں، کیونکہ فضائل کے لیے روایت کے صحیح ہونے کی شرط نہیں لگائی جاتی۔ یہ ان کا قول ہے۔ شیخ الاسلام ابن تیمیہ نے فرمایا:
’’ضعیف خبر (روایت) پر عمل، اس معنی میں کہ آدمی اس ثواب کی امید رکھتا ہے یا اس عقاب (سزا) سے ڈرتا ہے، اس کی مثال اسرائیلی روایات اور خوابوں کے ذریعے ترغیب و ترہیب، اور محض اس طرح کے امور کے ساتھ شرعی حکم کا اثبات جائز ہے نہ استحباب اور نہ کوئی اور چیز، لیکن اسے ترغیب و ترہیب میں ذکر کرنا جائز ہے، اس میں جو شرعی دلائل کے ساتھ اس کا حسن و قبح معلوم ہو، کیونکہ وہ مفید ہے مضر نہیں اور ثواب و عقاب کے حساب سے اعتقاد اس کا موجب ہے، شرعی دلیل پر توقف کیا جائے گا۔‘‘
میں کہتا ہوں: یہ وہ چیز ہے جو مصنف رحمہ اللہ نے ان نصوص میں بات مکمل کی ہے، کہ ضعیف حدیث کے ساتھ کسی شرعی حکم کا اثبات جائز نہیں وہ مستحب ہو یا اس کے علاوہ کچھ اور، وہ حق ہے جس کے علاوہ اور موقف ہمارے نزدیک جائز نہیں، اور اس سے نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ فضائل کی احادیث اور احکام کی احادیث کے درمیان کوئی فرق نہیں، اس کو روایت کرنے میں عدم تساہل مگر اس کے ثبوت کی تحقیق کے بعد، یا اس کے عدم ثبوت کے بیان کے ساتھ، خواہ وہ اس کی طرف اشارے کے ساتھ ہو، جس طرح مؤلف نے اس کتاب کی بعض احادیث کے بارے میں کیا ہے، اور محقق علماء کی کثیر تعداد کا یہی موقف ہے، جیسا کہ حافظ ابن حجر، امام شوکانی، علامہ صدیق حسن خاں اور شیخ احمد شاکر اور دیگر کا موقف ہے۔ اب ان کے اقوال ذکر کرنے کا موقع نہیں، ان شاء اللہ تعالیٰ کسی دوسری جگہ انہیں ذکر کیا جائے گا۔
میں اس بحث کو امام شوکانی رحمہ اللہ کی مختصر سی بات کے ساتھ سمیٹتا ہوں، انہوں نے فرمایا:
’’شرعی احکام برابر ہیں ان کے درمیان کوئی فرق نہیں، ان میں سے کسی چیز کو ایسی چیز کے بغیر مشہور کرنا جس کے ساتھ حجت قائم نہ ہوتی ہو جائز نہیں، ورنہ پھر وہ اللہ پر جھوٹ باندھنا ہے جو اس نے نہیں کہا اور اس جرم کی جو سزا ہے وہ معلوم ہے۔‘‘
ہمارے شیخ نے اپنی قیمتی کتاب ’’الثمر المستطاب‘‘ (۱/۲۱۷۔۲۱۹) میں فرمایا:
امام نووی رحمہ اللہ نے ’’المجموع‘‘ (۳/۱۲۲) میں فرماتے ہیں کہ ’’وہ حدیث ضعیف ہے،[1] کیونکہ وہ آدمی
|