Maktaba Wahhabi

753 - 756
ہے جنہیں اللہ نے مشروع قرار دیا ہے، تو پھر کسی ایسی چیز کے ساتھ اللہ کا قرب حاصل کرنا کس طرح جائز ہو سکتا ہے جسے اس نے حرام قرار دیا ہے؟ اسی لیے علماء نے صوفیاء کے گیتوں کو حرام قرار دیا ہے، اور اسے حلال قرار دینے والوں پر سخت اعتراض کیا ہے، جب قاری محترم اس قوی اصول کو اپنے ذہن میں رکھے گا تو اسے بالکل واضح ہو جائے گا کہ حکم کے لحاظ سے صوفیاء کے گیتوں اور دینی اشعار کے درمیان کوئی فرق نہیں۔ بلکہ اس میں کبھی ایک دوسری آفت ہوتی ہے، اور وہ یہ کہ انہیں دل لگی والے گیتوں کی سُروں پر گایا جاتا ہے، اور انہیں مشرقی یا مغربی موسیقی کے قوانین پر تیار کیا جاتا ہے جس سے سامعین جھومنے اور رقص کرنے لگتے ہیں، اور وجد میں آجاتے ہیں اور ان پر ’’حال‘‘ پڑ جاتا ہے، مقصود وہ لحن اور جھومنا ہے۔ وہ اشعار بالذات مقصود نہیں، اور یہ نئی مخالفت ہے، اور وہ کافروں اور دیوانوں سے مشابہت اختیار کرنا ہے۔ اس سے ایک اور مخالفت پیدا ہوتی ہے، وہ ہے ان کا قرآن سے اعراض کرنے اور اس کو چھوڑ دینے کے حوالے سے ان کے ساتھ مشابہت اختیار کرنا، وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اپنی قوم سے شکوہ کے عموم میں داخل ہوتے ہیں: جیسا کہ اللہ تعالیٰ کے فرمان میں ہے: ﴿وَقَالَ الرَّسُوْلُ یٰرَبِّ اِِنَّ قَوْمِی اتَّخَذُوْا ہٰذَا الْقُرْاٰنَ مَہْجُوْرًا﴾ (الفرقان: ۳۰) ’’اور رسول کہے گا: میرے رب! میری قوم نے اس قرآن کو چھوڑ رکھا تھا۔‘‘ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ جب میں دمشق میں تھا، … میرے عمان آنے سے دو سال پہلے … تو کسی مسلمان نوجوان نے صوفیاء کے گیتوں کی مخالفت کے قصد سے بعض سلیم المعنی اشعار گانا شروع کیے، جیسے البوصیری وغیرہ کے قصائد، اور انہیں ایک کیسٹ میں ریکارڈ کرایا، تھوڑے ہی عرصے بعد اس کے ساتھ دف کو شامل کر لیا، پھر انہوں نے شروع شروع میں شادی کی تقریبات میں اسے استعمال کیا، اور اس کی اساس یہ تھی کہ اس میں دف جائز ہے، پھر وہ کیسٹ عام ہو گئی اور اس سے کاپیاں تیار کرالی گئیں اور بہت سے گھروں میں اس کا استعمال عام ہو گیا اور وہ اسے صبح و شام سننے لگے، اس میں کسی مناسبت اور موقع و محل کا کوئی خیال نہ تھا، اور یہ ان کا معمول اور عادت بن گئی! اور یہ سب خواہشات کے غلبے، جہالت اور شیطان کی چال بازیوں کی وجہ سے تھا، اس نے انہیں قرآن کے اہتمام اور اس کے سماع سے ہٹا دیا اورمزید یہ کہ اس کے پڑھنے پڑھانے سے بھی دور کر دیا، اور وہ ان کے ہاں متروک ہو گیا، جیسا کہ آیت کریمہ میں آیا ہے، حافظ ابن کثیر نے اس آیت کریمہ ﴿وَقَالَ الرَّسُوْلُ یٰرَبِّ اِِنَّ قَوْمِی اتَّخَذُوْا ہٰذَا الْقُرْاٰنَ مَہْجُوْرًا﴾ (الفرقان:۳۰) کی تفسیر (۳/۳۱۷) میں بیان کیا: ’’اللہ تعالیٰ اپنے رسول اور اپنے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالے سے خبر دیتے ہوئے فرماتا ہے، کہ وہ کہیں گے: ﴿یٰرَبِّ اِِنَّ قَوْمِی اتَّخَذُوْا ہٰذَا الْقُرْاٰنَ مَہْجُوْرًا﴾ (الفرقان: ۳۰) ’’میرے ربّ! میری قوم نے اس قرآن کو چھوڑ دیا تھا۔‘‘ اور یہ کہ مشرک قرآن سنتے تھے نہ اسے سننے دیتے تھے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿لَا تَسْمَعُوْا
Flag Counter